قاتل کے ہاتھوں مقتول کا قتل ہونا تقدیر ہے ، تو قاتل کیوں گناہ گار ہوا؟
واضح رہے کہ اللہ تبارک و تعالی ازل سے ابد تک کا علم اور خبر رکھتے ہیں جو کچھ بھی ہورہاہے سارا کا سارا اللہ تبارک و تعالی کے علم کے مطابق ہورہا ہے، اسی طرح اللہ تبارک وتعالی نے تمام اختیارات اپنے دستِ قدرت میں رکھے ہیں اور مخلوق کو جو اختیار دیا گیا ہے وہ جزوی اختیار ہے، اسی (جزوی) اختیار کی بنا پرانسان اچھے کام کرنے کی وجہ سے ثواب اور برےکام کرنے کی وجہ سے گناہ گار ا ور سزاء کا مستحق بن جاتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں قاتل اپنے جزوی اختیار سے مقتول کو قتل کرے گا یہ اللہ تعالی کو پہلے سے معلوم ہے، لہذا یہ بات اس کی تقدیر میں لکھ دی گئی ہے اس لیے قاتل کے ہاتھوں مقتول کا قتل ہونا یقیناًتقدیرکا فیصلہ ہے، لیکن اس فعل یعنی قتل کرنے یا نہ کرنے کا تو قاتل کو اختیار تھااور اس نے اپنے اس اختیار کو غلط استعمال کرکے قتل کردیا اور مقتول کے قتل کا سبب بنا ، لہذا قاتل گناہ گار ہوا۔
واضح رہے کہ تقدیر کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے ، اس لیے اس پر ایمان رکھنا لازم ہے اس کی تفصیلات میں جانے کی اجازت نہیں۔
شرح العقائد النسفیۃ میں ہے:
"واللہ تعالی خالق لأفعال العباد من الکفر والإیمان والطاعة والعصیان وھی کلھا بإرادته و مشیته و للعباد أفعال اختیاریة یثابون بھا و یعاقبون علیھا والحسن منھا برضا اللہ تعالی والقبیح منھا لیس برضائه والاستطاعة مع الفعل ."
(ص:١٩٧/٢٠٣، ط:البشرى)
شرح عقيدہ طحاویہ لابن ابي العز میں ہے:
"فالمقتول ميت بأجله، فعلم الله تعالى وقدر وقضى أن هذا يموت بسبب المرض، وهذا بسبب القتل، وهذا بسبب الهدم، وهذا بسبب الحرق، وهذا بالغرق، إلى غير ذلك من الأسباب. والله سبحانه خلق الموت والحياة، وخلق سبب الموت والحياة...ووجوب القصاص والضمان على القاتل، لارتكابه المنهي عنه ومباشرته السبب المحظور."
(ص:١٠٠، ط:وزارة الشؤون الإسلامية، والأوقاف والدعوة والإرشاد)
قرآن مجید میں ہے:
"كُلُّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِينَةٌ" [74] المدثر.
ترجمہ:’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے محبوس ہوگا۔‘‘(بیان القرآن)
صحیح بخاری میں ہے:
"حدثنا سليمان بن حرب: حدثنا حماد، عن عبيد الله بن أبي بكر بن أنس، عن أنس بن مالك رضي الله عنه،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (وكل الله بالرحم ملكا، فيقول: أي رب نطفة، أي رب علقة، أي رب مضغة، فإذا أراد الله أن يقضي خلقها، قال: أي رب، ذكر أم أنثى، أشقي أم سعيد، فما الرزق، فما الأجل، فيكتب كذلك في بطن أمه)."
(كتاب القدر، ج:٤، ص:٢٩٠٥، ط:البشرى)
ترجمہ:’’نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا:اللہ تعالی نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کردیا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے، کہ اے رب !اب نطفہ ہے، اے رب! اب علقہ ہے، اے رب !اب مضغہ ہے،پھر جب اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش کا فیصلہ کرے ، تو وہ پوچھتا ہے اے رب! لڑکا یا لڑکی؟ بدبخت یا نیک بخت؟ اس کی روزی کیا ہوگی ؟اس کی موت کب ہوگی؟ چنانچہ اسی طرح ساری تفصیلات اسی وقت لکھ لی جاتی ہیں جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتاہے ۔‘‘(تفہیم البخاری)
شرح السنۃ للبربھاری میں ہے:
"والكلام والجدل والخصومة في القدر خاصة منهي عنه [عند] جميع الفرق؛ لأن القدر سر الله ونهى الرب تبارك وتعالى الأنبياء عن الكلام في القدر، ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخصومة في القدر، وكرهه العلماء وأهل الورع ونهوا عن الجدال في القدر، فعليك بالتسليم والإقرار والإيمان، واعتقاد ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في جملة الأشياء وتسكت عما سوى ذلك."
(ص:١٨، ط:دار عمر بن خطاب قاهرة)
عقیدۃ طحاویۃ میں ہے:
"وأصل القدر سر الله تعالى في خلقه لم يطلع على ذلكملك مقرب ولا نبي مرسل والتعمق والنظر في ذلك ذريعة الخذلان وسلم الحرمان ودرجة الطغيان فالحذر كل الحذر من ذلك نظرا وفكرا ووسوسة فإن الله تعالى طوى علم القدر عن أنامه ونهاهم عن مرامه كما قال الله تعالى في كتابه:لا يسأل عما يفعل وهم يسألون[الأنبياء: 23]."
(ص:٥٠، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144408102083
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن