بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پیداوار سے مخصوص حصہ طلب کرنا


سوال

سال یا آدھے  سال میں فصل میں سے مخصوص حصہ مانگنا،  یہاں لوگ اسے اجارہ کہتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟یہ اجارہ میں آسکتی ہے ؟

جواب

زراعت کے لیے زمین دینے کو شریعت کی اصطلاح میں ''مزارعہ''  کہا جاتا ہے، جس کے صحیح  ہونے کی چند شرائط ہیں، ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ پیدار وار کی متعین مقدار عاقدین میں سے کسی ایک کے لیے مقرر نہ کی جائے۔ پس اگر کسی ایک کے لیے متعین مقدار طے کی گئی تو اس صورت میں شرعاًعقدِ مزارعہ باطل ہو جاتا ہے۔لہذا اگر سوال سے مقصود یہ ہے کہ زمین کسی کو کاشتکاری کے لیے دی جائے اور یہ شرط رکھی جائے کہ اسی فصل کا مخصوص حصہ ، یا اسی فصل میں سے وزن کے اعتبار سے مخصوص مقدار اپنے لیے متعین کی جائے تو یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں ۔ 

البتہ اگر الگ  سے زمین کا کرایہ طے کرلیاجائے، یا   یوں طے کیا جائے کہ جو بھی پیداوار ہوگی اس کا نصف   یا ایک  تہائی یا دو تہائی وغیرہ  ایک کا ہوگا،یا مطلقًا یوں طے کیا جائے کہ فلاں غلہ  کی اتنی مقدار  (مثلًا: اتنے من گندم) لی جائے گی اور وہ غلہ چاہے اس زمین میں کاشت کار بوئے  یا نہ بوئے ،  کہیں اور سے خرید کر دے  یا بازار سے خرید کر دے ، ان صورتوں میں معاملہ درست ہوگا۔

اور اگر آپ کے سوال کا مقصود اس کے علاوہ ہے تو وضاحت کرکے دوبارہ دریافت کرلیں۔

الجوهرة النيرة - (3 / 461):

"قوله: ( فإن شرط لأحدهما قفزانا مسماة فهي باطلة ) ؛ لأن به تنقطع الشركة لجواز أن لا تخرج الأرض إلا ذلك القدر فيستحقه أحدهما دون الآخر ، وكذا إذا شرط صاحب البذر أن يرفع بقدر بذره ويكون الباقي بينهما فهو فاسد ؛ لأنه يؤدي إلى قطع الشركة في بعض معين أو في جميعه بأن لا تخرج إلا قدر البذر ."

الهداية شرح البداية - (4 / 55):

 "قال ولا تصح المزارعة إلآ على مدة معلومة لما بينا وأن يكون الخارج شائعا بينهما تحقيقا لمعنى الشركة فإن شرطا لأحدهما قفزانا مسماة فهي باطلة لأن به تنقطع الشركة لأن الأرض عساها لا تخرج إلا هذا القدر فصار كاشتراط دراهم معدودة لأحدها في المضاربة ."

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق - (11 / 362):

"وقال بعضهم صورة فساد المزارعة بالشرط الفاسد بأن عقدا المزارعة وشرطا لأحدهما قفزانا مسماة أو شرطا أن يرفع صاحب البذر بذره ويكون الباقي بينهما نصفين فهي باطلة لأنه عسى أن لا تخرج الأرض إلا هذا المقدار ا هـ ."

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (6 / 57):

 "والحيلة أن يفرز الأجر أولا أو يسمى قفيزا بلا تعيين ثم يعطيه قفيزا منه فيجوز ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں