بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرپال (purple) کمپنی میں سرمایہ کاری سود پر مشتمل ہے یا نہیں؟


سوال

کیا پرپال استعمال کرنا سود ہے  یا نہیں؟

جواب

ہماری معلومات کے مطابق پرپال (purple)  کمپنی کے 2  پیکجزہیں:

1-نیٹ ورک مارکیٹنگ  2 -انوسٹمنٹ پیکج ۔

ان میں سے جو دوسرا پیکج (انویسٹمنٹ پیکج) ہے وہ سودی معاملہ پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ پرپال (purple)   کمپنی کی ویب سائٹ پر اس کا طریقہ کار دیکھا گیا،  اس کی روشنی میں اس طریقہ کار پر کام کرکے پیسہ کمانا درج ذیل وجوہات کی بنا پر بھی ناجائز ہے:

1- اس میں ایسے لوگ اشتہارات کو دیکھتے ہیں جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

2-  جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو بلا ضرورت  اس کا دیکھنا جائز نہیں؛ لہذا اس پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔

3-  ان اشتہارات میں  خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔

 4-  اس معاملے میں جس طریق پر اس سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے، اس کے مطابق پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے، جب کہ  اس نے  اس نئےاکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا ، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے ۔حدیث شریف میں ہے:

شعب الإيمان (2/ 434):

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ ".

ترجمہ:آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (7/ 2112):

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لايكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".

 لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔

الشامیة(6/ 63):

"مطلب في أجرة الدلال

قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.

وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال : أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز ، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 290):

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة . ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں