بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پوری زندگی روزہ رکھنے کی منت کا حکم


سوال

ایک عورت نے منت مانی کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ اولاد دے تو میں ساری زندگی روزے رکھوں گی، اللہ تعالیٰ نےاس کو اولاد سے نواز دیا اور اب اس کا بیٹا بارہ سال کا ہو چکا ہے، اب یہ اپنی منت کے سلسلہ میں پریشان ہے۔ رہنمائی فرما دیں.

جواب

واضح رہے کہ نذر کے لیے زبان سے تلفظ ضروری ہے، لہٰذا اگر زبان سے مذکورہ نذر کا تلفظ کیا تھا تو صورتِ مسئولہ میں نذر ماننے سے نذر ہوگئی ہے ، اور مذکورہ عورت کو اللہ تعالی نے اولاد کی نعمت سے نوازدیا ہے تو ساری زندگی اس پر روزے رکھنا   ہی ضروری  ہے، سوائے عید ین (یکم شوال اور دس ذوالحجہ) کے اور ایام تشریق (11، 12 اور 13 ذوالحجہ) کے،  اور اگر بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے مذکورہ عورت لاچار ہوجائے اور روزہ رکھنے  کی طاقت نہ رہے تب ہر روزے  کے  بدلے کسی محتاج کو صدقہِٴ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دے سکتی ہے۔ (مستفاد: آپ کے مسائل اور ان کا حل  ۴/ ۶۱۵ مکتبہ لدھیانوی)

اور اگر مذکورہ عورت نہ روزہ رکھنے پر قادر ہے اور نہ ہی فدیہ ادا کرسکتی ہے تو  اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرے کہ وہ  اس کی کوتاہی کو اپنی رحمت سے معاف کر دے۔  (مستفاد: کفایت المفتی ۲/ ۲۵۴ ط: دار الاشاعت )

الموسوعة الفقهية الكويتية (40/ 165):
"ذهب الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة إلى أن من نذر صيام الدهر لزمه صيامه، ولم يدخل في نذره رمضان؛ لأنّ صيام أيامه لايقع إلا للفريضة، كما لايدخل في نذره أيام العيدين والتشريق، فلاتصام عن نذره، ولايقضي هذه الأيام؛ لأنها لاتقبل صومًا، ولهذا للناذر أن يقضي ما أفطره من رمضان، ويصوم الكفارات التي وجبت عليه: ككفارة الظهار والقتل والوقاع في نهار رمضان واليمين، مقدمًا ذلك على النذر؛ لأن هذا الصيام واجب بأصل الشرع، فيقدم على الصيام الذي أوجبه على نفسه بالنذر، كتقديم حجة الإسلام على المنذورة، فإن أفطر في أثناء صيامه هذا لعذر أولغيره لم يقض ما أفطره منه ؛ لأن الزمن مستغرق بالصوم المنذور ، إلا أنه تلزمه فدية لترك الصيام بلا عذر. وقد اختلف في مقدار هذه الفدية ، فقدرها الحنفية بأنها نصف صاع من بر عن كل يوم أفطره ، أو صاع من تمر أو شعير".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 735):

’’(ومن نذر نذراً مطلقاً أو معلقاً بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعاً للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر)؛ لحديث: «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى» (كصوم ...‘‘ الخ

الفتاوى الهندية (1/ 209):

’’إذا نذر أن يصوم كل خميس يأتي عليه فأفطر خميساً واحداً فعليه قضاؤه، كذا في المحيط.

ولو أخر القضاء حتى صار شيخاً فانياً أو كان النذر بصيام الأبد فعجز لذلك أو باشتغاله بالمعيشة لكون صناعته شاقةً فله أن يفطر ويطعم لكل يوم مسكيناً على ما تقدم، وإن لم يقدر على ذلك لعسرته يستغفر الله إنه هو الغفور الرحيم‘‘.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 739):

’’نظيره الصوم في حق الشيخ الفاني معصية لإفضائه إلى إهلاكه، وصح نذره بالصوم وعليه الفدية، وجعل ذلك التزاماً للفدية‘‘.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 427) كتاب الصوم،فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم ،الناشر:دار الفكر-بيروت:

’’(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوباً ... هذا إذا كان الصوم أصلاً بنفسه وخوطب بأدائه، حتى لو لزمه الصوم لكفارة يمين أو قتل ثم عجز لم تجز الفدية‘‘.

(قوله: هذا) أي وجوب الفدية على الشيخ الفاني ونحوه (قوله: أصلاً بنفسه) كرمضان وقضائه والنذر كما مر فيمن نذر صوم الأبد، وكذا لو نذر صوماً معيناً فلم يصم حتى صار فانياً جازت له الفدية، بحر‘‘. فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں