میں ایک کمپنی میں پرچیز آفیسر ہوں، میرے ایک دوست نے کمپنی کھولی ہے اور کہا اگر تمہاری کمپنی میں میرے سامان کی ضرورت ہو تو مجھے لازمی بتانا اور اگر جائز طریقے سے آرڈر لگ گیا تو میں تمہیں 10 سے 15 فی صد نفع میں سے دوں گا۔ اتفاق سے اس کے ریٹس کم تھے اور اس کا آرڈر لگ گیا جائز طریقے سے۔ سوال یہ ہے کہ اب وہ مجھے میرا حصہ دینا چاہ رہا ہو تو کیا میرے لیے وہ حصہ جائز ہے؟ میں نے کوئی فکس نہیں کیا وہ اپنی مرضی سے دے گا، البتہ یہ طے ہوا تھا اگر آرڈر لگ گیا تو کچھ نہ کچھ وہ مجھے دے گا، راہ نمائی فرمائیں۔
کمپنی والے اگر آپ سے کوئی کام کرنے کا کہیں تو آپ اس متعلقہ کام میں ان کے وکیل ہیں ، لہذا اس کام میں جتنا خرچہ آئے یا جتنی رقم میں وہ کام ہوجائے اتنی ہی رقم آپ کمپنی سے لے سکتے ہیں ، کام کم رقم میں کرواکر زیادہ رقم کا بل بنانا یا جس سے کام کروایا اس سے کہہ کر اپنا کمیشن بھی بل میں شامل کرانا خیانت اور دھوکا دہی ہے ، جو ناجائز ہے۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".
(الکتاب الحادی عشر الوکالۃ، الباب الثالث، الفصل االاول، المادۃ:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109200970
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن