پرانی قیمت پر خریدی گئی چیز نئی قیمت پر فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
شریعتِ مطہرہ نے خرید و فروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضامندی پر رکھا ہے اور منافع کی مخصوص حد مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، تاہم تاجر کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائے اور لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کی جائے ، اس لیے اتنا منافع لینا چاہیے جس میں فروخت کرنے والے کے ساتھ ساتھ خریدار کی مصالح کی بھی رعایت رہے، اور اس کو اس سے ضرر نہ پہنچے، لہذا پرانی قیمت پر خریدی گئی چیز کو مناسب نفع کے ساتھ نئی قیمت پر بیچنا جائز ہے۔
الفتاوى الهندية (3/ 161):
"ومن اشترى شيئًا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لايتغابن الناس فيها فإني لاأحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين."
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 124):
"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقاً للقيمة الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207200393
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن