بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانی قیمت پر لی ہوئی چیز کو نئی قیمت پر بیچنا


سوال

ہمارا ایک میڈیکل اسٹور ہے، کمپنی والے آکر بتاتے ہیں کہ leflox teblet دوائی کا ریٹ بڑھ رہا ہے،  آپ 50 پیکٹ منگوالو تو جب نیا ریٹ مارکیٹ میں آجاے گا تو آپ اسے نئے ریٹ پر بپچ دینا، چناں چہ ہم منگوا کر نئے ریٹ آنے پر پرانے ریٹ کاٹ کر اپنی اسٹیمپ لگا کر بیچتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ نے خرید  و  فروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضامندی پر رکھا ہے  اور منافع کی مخصوص حد  مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، تاہم تاجر کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائے اور  لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کی جائے ، اس لیے اتنا منافع لینا چاہیے جس میں فروخت کرنے والے کے ساتھ ساتھ خریدار کی مصالح کی بھی رعایت رہے، اور اس کو اس سے ضرر نہ پہنچے، لہذا صورت ِ مسئولہ میں پرانی قیمت پر خریدی گئی دوا کو مناسب نفع کے ساتھ نئی قیمت پر بیچنا جائز ہے۔

 درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقاً للقيمة الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها".

(المادة:153،ج:1،ص:124،ط:دار الجيل)

مسند امام احمد بن حنبل رح میں ہے:

"عن أبي هريرة: أن رجلا قال: ‌سعر يا رسول الله. قال: " إنما يرفع الله ويخفض، إني لأرجو أن ألقى الله عز وجل، وليس لأحد عندي مظلمة ". وقال آخر: ‌سعر. قال: " أدعوا الله عز وجل".

(ج:14، ص:443، رقم الحديث:8852، ط:مؤسسة الرسالة)

"ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نےرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ  یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! بھاؤ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بھاؤ گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور میں یہ آرزو رکھتا ہوں کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں کہ میں نے کسی پر بھی زیادتی نہ کی ہو،  پھر ایک شخص نے آکر عرض کی: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اشیاء) کے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا،"۔

سنن ابو داؤد میں ہے:

"عن أنس: قال الناس: يا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - غلا السعر ‌فسعر ‌لنا، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إن الله هو المسعر، القابض الباسط الرازق، وإني لأرجو أن ألقى الله عز وجل وليس أحد منكم يطالبني بمظلمة في دم ولا مال".

(باب في التسعير،ج:5،ص:322،رقم الحديث:3451،ط:دار الرسالة العالمية)

"ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں، لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا"۔

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144504100272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں