بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

قبرستان میں جگہ کی تنگی کے باعث پرانی قبر میں نئی میت کو دفن کرنے کا حکم


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال ہوا،قریبی  قبرستانوں  میں جگہ کی تنگی کی وجہ ہم نے ان کی تدفین  والدہ کی قبر میں کروا دی، والدہ کا انتقال ڈھائی سال پہلے ہوا تھا،ہمارے اس عمل کی وجہ سے سارے خاندان والے ہم پر تنقید کر رہے ہیں ۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے : 
(1)کیا ہمارا یہ عمل شرعاً جائز ہے؟
(2)کیا ہمارے اس عمل کی وجہ سے ہمارے خاندان والوں کا تنقید کرنا درست ہے؟
(3)ایک قبر میں ایک میت کو دفن کرنے کے کتنے عرصے بعد دوسری میت کو دفن کرسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ پرانی قبر میں نئی میت کو رکھنا صرف اس صورت  میں جائز ہے جب پرانی  قبراتنی پرانی ہو جائے کہ میت بالکل مٹی بن جائے، تو اس قبر میں  دوسری میت کو دفن کرنا درست ہے، اگر پرانی میت مٹی نہیں بنی تو اس میں دوسری میت کو دفن کرنا جائز نہیں ہے۔
(1-2) صورتِ مسئولہ میں جستجو اورتلاش  کرنے پر دوسرے علاقوں کی قبرستانوں میں یا شہر سے باہر کسی بھی قبرستان میں تدفین کے لیے جگہ دستیاب ہو سکتی تھی تو محض علاقائی قبرستان میں جگہ کی تنگی کے باعث یا اپنی سہولت اور آسانی کے خاطر اپنی والدہ کی(ڈہائی سالہ قبر جو کہ تازی قبر میں شمار ہوتی ہے)  قبر کشائی کرکے اپنے والد کی تدفین اسی قبر میں کروانا درست نہیں تھا، اس پر سائل اور دیگر ورثاء کوتوبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ کے لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے، نیز  اس موقع پر خاندان والوں کی ناراضگی اور تشویش بھی بجا ہے، تاہم اب اسے مسلسل موضوعِ بحث نہ بنایا جائے،نیز اب اس کی تلافی کی صورت صرف توبہ استغفار ہے ،  والد کی میت کو دوسری جگہ منتقل نہ کیا جائے۔
(3)باقی ایک قبر میں ایک میت کے بعد دوسری میت کو  دفن کرنے کے سلسلے میں شریعت میں کوئی مدت متعین نہیں بلکہ جب تک پرانی میت کی جسم بالکل مٹی نہ ہوجائے تب تک بلاوجہ اس قبر کو کھولنا جائز نہیں اور میت کے گلنےاور ختم ہونے  کا مدار اس علاقے کے موسم پر ہے   ۔
اگر کسی علاقے میں اس طرح کے واقعہ پیش آجائے تو اس علاقے کے مبصرین اور ان معاملات میں تجربہ رکھنے والے لوگوں سے مشورہ کر کے قبر کھولنے نہ کھولنے کا فیصلہ کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لا يوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب. ويكره الدفن في الفساقي ... واختلاط الرجال بالنساء بلا حاجز، وتجصيصها، والبناء عليها بحر. قال في الحلية: وخصوصا إن كان فيها ميت لم يبل؛ وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداء في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلا عن كون ذلك ونحوه مبيحا للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اهـ: وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا ‌جاز ‌دفن ‌غيره ‌في ‌قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركا بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. اهـ."

(‌‌باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، ج:2، ص:233، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

الموسوعة الفقهيہ الكويتيہ میں ہے:

"نبش قبر الميت لدفن آخر معه"
"يحرم نبش قبر ميت باق لميت آخر، لما في ذلك من هتك حرمة الميت الأول، ومتى علم أو ظن أن الميت بلي وصار رميما جاز نبشه ودفن غيره فيه، ويختلف ذلك باختلاف البلاد والهواء، وهو في البلاد الحارة أسرع منه في البلاد الباردة. وإن شك في ذلك أي أنه بلي وصار رميما رجع إلى قول أهل الخبرة لمعرفة ذلك. فإن حفر فوجد فيها عظاما دفنها في مكانها، وأعاد التراب كما كان ولم يجز دفن ميت آخر عليه. كما أنه يجوز إذا صار الميت رميما الزراعة والحراثة وغيرهما في موضع الدفن إذا لم يخالف شروط واقف، أو لم تكن المقبرة مسبلة . وقال الحنفية: لو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه."

(الأحكام المتعلقة بالنبش، ج:40، ص:33، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية الكويت)

حاشيہ طحطاوی على مراقي الفلاح میں ہے:

"البدر العيني في شرح البخاري قوله: "جاز دفن غيره في قبره" وزرعه والبناء عليه كذا في التبيين قوله: "ولو كان ذميا" في التتارخانية مقابر أهل الذمة لا تنبش وإن طال الزمن لأنهم أتباع المسلمين أحياء وأمواتا بخلاف أهل الحرب إذا احتيج إلى نبشهم فلا بأس به اهـ وسئل أبو بكر الأسكافي عن المرأة تقبر في قبر الرجل فقال إن كان الرجل قد بلى ولم يبق له لحم ولا عظم جاز وكذا العكس وإلا فإن كانوا لا يجدون يدا يجعلون عظام الأول في موضع ‌وليجعلوا ‌بينهما ‌حاجزا ‌بالصعيد اهـ قال في الشرح ولا يخفى أن ضم عظام المسلم يحصل به خلال ولا تخلو به عن كسر بسبب التحويل خصوصا الآن كما اعتاده الحفارون من إتلاف القبور التي لا تزار إلا قليلا ولا يتعاهدها أهلها ونقل عظام الموتى أو طمسها أو جمعها في حفرة وإيهام أن المحل لم يكن به ميت فلا يقال تضم أو تجعل عظام الأول في موضع دفعا للضرر عن موتى المسلمين اهـ ."

(كتاب الصلاة‌‌, باب أحكام الجنائز‌‌، فصل في حملها ودفنها، ص:613، ط:دار الكتب العلمية بيروت، لبنان)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح  میں ہے:

"وسئل أبو بكر الأسكافي عن المرأة تقبر في قبر الرجل؟ فقال: إن كان الرجل قد بلي ولم يبق له لحم ولا عظم جاز، وكذا العكس، وإلا فإن كانوا لايجدون بداً يجعلون عظام الأول في موضع، وليجعلوا بينهما حاجزاً بالصعيد."

(كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، فصل في حملها و دفنها، ص: 612 ، 613، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

( شامی ص ۸۳۵ ج۱) مذکورہ بالا عبارتوں سے واضح ہوتا ہے کہ راجح قول کے مطابق مردہ جب خاک ہو جائے اور اس کا اثر باقی نہ بانی نه رہے تو اس صورت میں دوسرے میت کو اس قبر میں دفن کرنا جائز ہے خاص کر بڑے شہروں میں جہاں زمین کی قلت ہوتی ہے اور اس سے قبل جب کہ اندازہ یہ ہو کہ میت کا جسم خاک نہ ہوا ہو گا قصداً وارادة بلا عذر شرعی قبر کھودنا جائز نہ ہو گا۔
لہذا صورت مسئولہ میں جب کہ زمین کی قلت ہو ، نیا قبرستان آبادی سے بہت دور ملتا ہو اور وہاں تک اموات کا نقل و حمل بہت دشوار ہو تو مبصرین جتنی مدت کا اندازہ بتائیں اور تجربہ سے بھی ان کی بات کی تصدیق ہوتی ہو تو اتنی مدت کے بعد پرانی قبر میں میت دفن کرنا جائز ہے اگر کبھی ہڈیاں نکالیں تو پوری احترام کے ساتھ قبر کے ایک جانب رکھ کر مٹی کی آڑ کر دی جائے پختہ قبر بنانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے کہ شرعاً بھی ممنوع ہے اور مصلحت کے بھی خلاف ہے۔

(کتاب الجنائز، ج:7، ص:70، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101865

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں