میری والدہ کا 2005 میں انتقال ہواتھا، اور میری زوجہ کا انتقال 2024 میں ہوا، میں نے اپنی والدہ کی قبر کھود کر اس میں اپنی زوجہ کو دفن کر دیا، بعد میں رشتہ داروں نے اعتراض کیا تو میں نے ائمہ مساجد سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے غلط کیا ہے، لہذا آپ اب استغفار کریں، اب مجھے اس سلسلہ میں فتوی چاہیے تا کہ میں اپنی جماعت کو دکھاؤں کہ وہ کام سے رک جائے۔
وضاحت : جب قبر کھولی گئی تو صرف کچھ ہڈیاں تھیں، جو زمین ہی میں دفنا دی تھیں۔
واضح رہے کہ پرانی قبر میں نئی میت کو رکھنا صرف اس صورت میں جائز ہے جب پرانی قبراتنی پرانی ہو جائے کہ اس میں میت بالکل مٹی بن جائے، تو اس قبر میں دوسری میت کو دفن کرنا درست ہے،قبر کھولتے ہوئے اس میں اگر سابقہ میت کی ہڈیاں وغیرہ کچھ نکل آئے تو انہیں قریب ہی دفن کردیا جائے یا اسی قبر میں ایک طرف علیحدہ کر کے ان ہڈیوں اور نئی میت کے درمیان مٹی کی آڑ بنادی جائے، لیکن اگر قبر اتنی پرانی نہ ہو کہ سابقہ میت بالکل مٹی ہوچکی ہو تو پھر اس قبر کو کھود کر اس میں دوسری میت کو دفنانا جائز نہیں ہوگا، اور اس سلسلے میں اُس علاقے کے مبصرین، ماہرین اور ان معاملات میں تجربہ رکھنے والے لوگوں سے مشورہ کر کے قبر کھولنے نہ کھولنے کا فیصلہ کیا جائے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی والدہ کی قبر کو انیس سال بعد کھول کر اس میں بیوی کی میت کو دفنایا، تو سائل کی وضاحت کے مطابق قبر میں صرف کچھ ہڈیاں ہی تھیں جن کو دفنا دیا گیا،تو ایسی صورت میں اس قبر میں دوسری ( یعنی بیوی کی) میت کو دفنانا ، جائز تھا ۔ البتہ سائل کے لیے باقی عزیز و اقارب وغیرہ کو اعتماد میں لے کر باہمی مشاورت سے یہ عمل کرنا بہتر تھا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لا يوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب. ويكره الدفن في الفساقي ... واختلاط الرجال بالنساء بلا حاجز، وتجصيصها، والبناء عليها بحر. قال في الحلية: وخصوصا إن كان فيها ميت لم يبل؛ وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداء في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلا عن كون ذلك ونحوه مبيحا للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اهـ: وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركا بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. اهـ."
(باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، ج:2، ص:233، ط: مصطفى البابي الحلبي)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ولا يدفن اثنان أو ثلاثة في قبر واحد إلا عند الحاجة فيوضع الرجل مما يلي القبلة ثم خلفه الغلام ثم خلفه الخنثى ثم خلفه المرأة ويجعل بين كل ميتين حاجز من التراب، كذا في محيط السرخسي، وإن كانا رجلين يقدم في اللحد أفضلهما، هكذا في المحيط....وكذا إذا كانتا امرأتين، هكذا في التتارخانية.
ولو بلى الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه، كذا في التبيين."
(کتاب الصلوة،الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مكان إلى آخر، ج:1، ص: 166، ط:دارالفکر)
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:
"ولا بأس بدفن أكثر من واحد" في قبر واحد "للضرورة" قال قاضيخان "ويحجز بين كل اثنين بالتراب" هكذا أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض الغزوات ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره، ولايجوز كسر عظامه ولا تحويلها ولو كان ذمياً، ولاينبش وإن طال الزمان."
(كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، فصل في حملها ودفنها، ص:227، ط:المكتبة العصرية)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
( شامی ص ۸۳۵ ج۱) مذکورہ بالا عبارتوں سے واضح ہوتا ہے کہ راجح قول کے مطابق مردہ جب خاک ہو جائے اور اس کا اثر باقی نہ بانی نه رہے تو اس صورت میں دوسرے میت کو اس قبر میں دفن کرنا جائز ہے خاص کر بڑے شہروں میں جہاں زمین کی قلت ہوتی ہے اور اس سے قبل جب کہ اندازہ یہ ہو کہ میت کا جسم خاک نہ ہوا ہو گا قصداً وارادة بلا عذر شرعی قبر کھودنا جائز نہ ہو گا۔
لہذا صورت مسئولہ میں جب کہ زمین کی قلت ہو ، نیا قبرستان آبادی سے بہت دور ملتا ہو اور وہاں تک اموات کا نقل و حمل بہت دشوار ہو تو مبصرین جتنی مدت کا اندازہ بتائیں اور تجربہ سے بھی ان کی بات کی تصدیق ہوتی ہو تو اتنی مدت کے بعد پرانی قبر میں میت دفن کرنا جائز ہے اگر کبھی ہڈیاں نکالیں تو پوری احترام کے ساتھ قبر کے ایک جانب رکھ کر مٹی کی آڑ کر دی جائے پختہ قبر بنانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے کہ شرعاً بھی ممنوع ہے اور مصلحت کے بھی خلاف ہے۔
(کتاب الجنائز، ج:7، ص:70، ط:دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100772
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن