بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

پرانی مسجد کو گزرگاہ بنا دینے کا حکم


سوال

ہمارے گاؤں میں روڈ سے متصل ایک خالی پلاٹ چار دیواری کے بغیر واقع ہے جس کے بارے میں محلے کے اکابر نے کچھ سال پہلے آگاہ کیا کہ اس جگہ پہلے مسجد تھی، پھر اس مسجد کو دوسری جگہ منتقل کیا گیا، جہاں ابھی مسجد ہے، سوال یہ ہے کہ اس خالی پلاٹ میں خواتین کے لیے مدرسہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟ یا اس پلاٹ میں دکان بنا کر کرایہ مسجد کی ضروریات میں استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ یا اس پلاٹ میں خوبانی وغیرہ کی نرسری لگا کر فروخت شدہ پودوں کے پیسوں کو مسجد کی ضروریات میں استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر مذکورہ بالا تصرف جائز نہیں، تو مسجد کے اس خالی پلاٹ کو بغیر چار دیواری کیے ایسے چھوڑنا، جو انسانوں اور چوپایوں کی گزرگاہ بن جائے، تو اس میں محلے والے گناہ گار ہوں گے یا نہیں؟ جب کہ محلے کے بعض افراد کو اس کا علم بھی نہیں ہے کہ اس جگہ مسجد تھی، رہنمائی فرمائیں۔

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر باوثوق ذرائع سے ثابت ہو کہ مذکورہ پلاٹ پر مسجد قائم تھی، دوسری مسجد کی تعمیر کے بعد اسے ڈھا دیا گیا تھا، تو اب اس پلاٹ پر بنات کا مدرسہ ، دکانیں، نرسری یا کچھ اور بنانا سب ناجائز ہے؛ کیوں کہ جس جگہ ایک مرتبہ مسجد بنا دی جائے، وہ جگہ قیامت تک کسی دوسرے کام میں استعمال نہیں کی جاسکتی، تاہم اگر مسجد کی ضرورت باقی نہ ہو، تواس جگہ کی حفاظت کرنا اور اس کے تقدس کو باقی رکھنا اہلِ محلہ پر لازم ہوتا ہے، لہذا مذکورہ پلاٹ  کی چار دیواری  بنا کر  اسے محفوظ  کردیا جائے،  اور اس پر مسجد کی جگہ لکھ دیا جائے، تاکہ بعد میں اگر کبھی اس جگہ مسجد کی تعمیر کی ضرورت  پیش آئے تو اس جگہ مسجد بنائی جا سکے۔

جب تک محلہ والوں کو علم نہ تھا کہ یہ پلاٹ مسجد کا ہے اس وقت تک اگر کوئی کوتاہی ہوئی تو  امید ہے کہ اس کا گناہ نہیں ہو گا، لیکن علم ہو جانے کے بعد کوتاہی کرنا گناہ کا باعث ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه، يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة، (وبه يفتي) حاوي القدسی.وفي الرد : (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا، وهو الفتوی، حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه، مجتبى، وهو الأوجه، فتح. اه. بحر."

(کتاب الوقف، مطلب فيما لوخرب المسجد أو غيرہ،ج:4، ص:358، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

          "إن أرادوا أن يجعلوا شيئًا من المسجد طريقًا للمسلمين فقد قيل: ليس لهم ذلك وأنه صحيح، كذا في المحيط."

(الفصل الأول فيما يصير به مسجدًا و في أحكامه و أحكام ما فيه: 2/457، ط:دار الفکر)

فتاوٰی محمود یہ میں ہے:

"جو جگہ ایک دفعہ شرعی طریقہ پر مسجد بنادی گئی ہے اور وہاں اذان جماعت شروع ہو جاۓ تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسجد بن جاتی ہے، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی ہو، جب نئی مسجد بنائی گئی تو اس میں بھی اذان ، جماعت سب درست ہے، پرانی مسجد کا کوئی نشان اب موجود نہیں لیکن اگر دلیل سے ثابت ہو جا ئے کہ یہاں سے یہاں تک مسجد تھی ، تو اب اس کو قبرستان کے کام میں لانے کی اجازت نہیں ، بلکہ اس جگہ کو گھیر کر محفوظ کر دیا جاۓ ، تاکہ وہاں مردے دفن نہ ہوں اور اذ ان ،نماز سے اس پرانی چھوٹی مسجد کو بھی آباد کیا جائے۔"

(کتاب الوقف، باب احکام  المساجد، 111٫112/23، ط: ادارۃ الفاروق) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612100141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں