بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانی قیمت کا خریدا ہوا مال مہنگا کر کے فروخت کرنا


سوال

میرا تعلق میڈیسن مارکیٹ سے ہے، میری ایک کمپنی ہے جس کا نام بلال انٹرپرائزز ہے، ہم مارکیٹ میں میڈیسن کی خرید و فروخت کرتے ہیں دوائیوں کی کوئی  کمپنی مارکیٹ سے اپنا مال (میڈیسن) شاٹ کر دیتی ہے تاکہ وہ مہنگی کرسکے اور ہم کمپنی سے وہ مال  (میڈیسن) خریدتے ہیں پرانی قیمت پر، پھر جب کمپنی مارکیٹ میں اپنا نیا ریٹ لاتی ہے تو ہم اسے نئے ریٹ سے کچھ کم میں مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں، مثلاً کمپنی کا پرانا ریٹ 100 روپے ہو اور نیا ریٹ130 روپے ہو، تو ہم پرانا مال نئے ریٹ سے کچھ کم یعنی 120 روپے میں فروخت کرتے ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ ہمارا یہ عمل سود تو نہیں؟ اور اس مسئلے کے بارے کی مکمل رہنمائی فرمائیں۔

جواب

شریعتِ مطہرہ نے خرید  و  فروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضامندی پر رکھا ہے  اور منافع کی مخصوص حد  مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، تاہم تاجر کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائے اور  لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کرے ، اس لیے اتنا منافع لینا چاہیے جس میں فروخت کرنے والے کے ساتھ ساتھ خریدار کی مصالح کی بھی رعایت رہے، اور اس کو اس سے ضرر نہ پہنچے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں پرانی قیمت پر خریدا گیا مال مناسب نفع کے ساتھ نئی قیمت پر یا اس سے کچھ کم پر بیچنا جائز ہے، اس میں سود نہیں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ومن اشترى شيئًا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لايتغابن الناس فيها فإني لاأحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين."

(كتاب البيوع، الباب الرابع عشر، جلد:3، صفحه: 161، طبع: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں