بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانے قبرستان پر مسجد مدرسہ بنانا


سوال

قبرستان پر مسجد بنوانا  کیسا ہے؟ ہمارے گاؤں میں  ستر اسّی سال کا پرانا قبرستان ہے، جس پر پہلے مدرسہ بن گیا، اب مسجد بنا دی گئی، کیا پرانے قبرستان پر مدرسہ یا مسجد بنانا جائز ہے،  اور اگر جائز ہے تو اِس میں قبروں کے اثرات ہوتے ہیں یا ختم ہو جاتے ہیں؟ بعض لوگوں کو اِس سے کراہت آتی ہے۔

جواب

اگر قدیم قبرستان موقوفہ ہو، کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو تو وہ قبرستان جس مقصد کے لیے وقف ہے اُسی میں استعمال کرنا لازم ہے، اگر پرانی قبروں کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں مدفون اَموات مٹی بن چکی ہوں تو اس میں جدید اَموات کی تدفین کی جائے اور اگر تدفین کی حاجت نہیں رہی تو اس زمین کو کسی ایسے مصرف میں استعمال  کرنا جائز ہے جو وقف ہی ہو ،مثلاً: مدرسہ،مسجد،عیدگاہ یا جنازہ گاہ وغیرہ، پھر  اگر قبرستان کے وقف ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہ ہو تو عام اَموات کا اس میں بلا روک ٹوک دفن ہوتے رہنا ہی اس کے وقف ہونے کا قرینہ قرار دیا جائے گا۔

اور اگر قبرستان کی زمین کسی کی ذاتی ملکیت ہو اور  قبروں کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں مدفون میتیں مٹی بن چکی ہوں تو مالک  زمین  کے لیے اس میں ہر قسم کا تصرف کرنا جائز ہے، اگر اُس کی اجازت سے مسجد یا مدرسہ بنایا جائے تو ایسا کرنا درست ہے۔

اب آپ نے سوال میں جس قبرستان کا ذکر کیا ہے اس کے متعلق یہ صراحت نہیں کی کہ وہ کسی کا مملوکہ تھا یا موقوفہ، دونوں صورتوں کا حکم گزشتہ سطور میں درج کر دیا گیا ہے، اس تفصیل کے مطابق اگر وہاں مسجد بنانے کی گنجائش ہو تو ایسی مسجد میں نماز ادا کرنے میں کراہت محسوس نہیں کرنی چاہیے؛ کیوں کہ لاشیں بوسیدہ ہوکر مٹی مٹی ہوچکیں، رسول اللہ ﷺ نے مسجدِ نبوی کے لیے جو زمین خریدی تھی، اس میں  قدیم مقبرہ تھا، جس کی لاشیں بوسیدہ ہوگئی تھیں، آپ ﷺ نے وہیں مسجدِ نبوی تعمیر کروائی، اور جو بوسیدہ ہڈیاں نکلیں انہیں منتقل کردیا گیا۔

نیز آپ نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ قبرستان پر  مسجد بنانے سے پہلے مدرسہ کس حیثیت میں بنایا گیا؟ اور بنانے والا مالکِ مقبرہ تھا یا کون؟ اگر ان امور کی وضاحت ہوجاتی تو بہتر تھا۔

الفتاوى الهندية (2/ 470):

"و سئل هو أيضًا عن المقبرة في القرى إذا اندرست و لم يبق فيها أثر الموتى لا العظم  و لا غيره هل يجوز زرعها و استغلالها؟ قال: لا، و لها حكم المقبرة، كذا في المحيط."

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (2 / 233):

" وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ  قال في الإمداد ويخالفه ما في التاترخانية: إذا صار الميت تراباً في القبر يكره دفن غيره في قبره؛ لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية، ثم دفن غيره فيه تبركاً بالجيران الصالحين ويوجد موضع فارغ يكره ذلك اهـ قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلاء إذا لايمكن أن يعد لكل ميت قبر لايدفن فيه غيره وإن صار الأول تراباً، لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبول السهل والوعر على أن المنع من الحفر إلى أن لايبقى عظم عسر جداً وإن أمكن ذلك لبعض الناس لكن الكلام في جعله حكماً عاماً لكل أحد، فتأمل".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (6 / 473):

"فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجداً لم أر بذلك بأساً، وذلك؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لايجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد؛ لأن المسجد أيضاً وقف من أوقاف المسلمين لايجوز تملكه لأحد".

کفایت المفتی میں ہے:

’’مسجد کی طرح قبرستان میں بھی عام اَموات کا بلاروک ٹوک دفن ہونا اس کے وقف ہونے کے لیے کافی ہے۔‘‘

(7/ 212, کتاب الوقف ،چھٹا باب،ط:دارالاشاعت کراچی)

امدادالفتاوی میں ہے:

’’الجواب: عام قبرستان وقف ہوتا ہے اور سوا اللہ جل شانہ کے کوئی اس کا مالک نہیں ہوتا اور جب وقف ہوا تو متولی بحیثیت قبضہ اس کا مالک نہیں بن سکتا اور اس میں کوئی تصرف مالکانہ بیع و شراء وغیرہ نہیں کرسکتا۔۔۔‘‘الخ

(2/ 570, کتاب الوقف،ط:دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں