بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانی قبروں والی زمین میں گھر بنانے کا حکم


سوال

اگرکوئی زمین آباؤ اجداد سے میراث در میراث چلی آرہی ہو،اور پھر بعد میں بھائیوں کے درمیان تقسیم ہوجائے،اب ایک بھائی کے حصہ میں جو زمین آئی ہے اس کے بعض حصہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں کچھ قبریں ہیں لیکن قبروں کے نشانات یا کچھ آثار نظر نہیں آرہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسی زمین پر گھر وغیرہ بنانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

 جب ذاتی مملوکہ زمین میں قبریں پرانی اور بوسیدہ ہوکر مٹ جائیں، اور  لاشوں کے  بارے میں یقین  یا ظن غالب ہو کہ  وہ مٹی ہوگئے ہیں  تو  اس زمین پر عمارت بنانا، کھیتی  باڑی کرنا، یعنی اپنے استعمال میں لانا شرعا جائز ہے۔ صورت مسئولہ میں جب  ان قبروں  کے بارے میں  پرانے ہونے کی وجہ سے صحیح علم بھی کسی  کو نہیں،   اور  اس کے نشانات بھی نہیں، تو ظاہر ہے کہ اس میں دفن شدہ مردوں کی لاشیں بھی  مٹی ہوگئی ہوں گی،  یا سرے سے یہاں قبریں ہی نہیں ہوں گی؛  لہذا ایسی زمین کو استعمال میں لانا جائز ہے، اوراس پر گھر بنانا بھی جائز ہے،  لیکن اگر قبروں کی جگہ وقف ہوتو پھر اسے ذاتی استعمال میں لاناجائزنہ ہوگا۔

"ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه."

(الفتاوی الهندیة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز،الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مكان إلى آخر (1/ 167)،ط. رشيديه)

"والمقبرة إذا عفت ودثرت تعود ملكا لأربابها."

(عمدة القاری: کتاب الصلاة، باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد (4/ 179)، ط۔دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144202200032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں