بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانی قبروں کو نئی تدفین کے لیے کھولنے اور مرد کی قبر میں خاتون اور خاتون کی قبر میں مرد دفنانے کا حکم


سوال

 گودھرا برادری کا مشترکہ قبرستان (گودھرا قبرستان  نارتھ کراچی) جوان انجمنوں( گودھرا مسلم انجمن الیون ایف نیو کراچی،  گودھرا  شیخ مسلم انجمن الیوں جی نیو  کراچی،  گودھرا محمد ی  انجمن ایف بی ایریا کراچی )کے ماتحت  عرصہ ستائیس  سال سے قائم ہے۔ الحمدللہ جس میں گودھرا برادری سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کی تدفین عمل میں لائی جاتی ہے۔

اس قبرستان میں تدفین کے لیے جگہ کی گنجائش نہیں رہی اور برادری کے درج بالا تینوں انجمنوں کی کمیٹیاں اور دیگر افراد عرصہ تین سال سے کسی نئی جگہ کی تلاشی میں  ہیں ، مگر شہر کراچی اور اس کے مضافات میں جگہ دستیاب نہیں ہو رہی،  چند جگہوں کے بارے میں نشاندہی ہوئی تو ان کے مالکوں سے ان زمینوں کے خرید فروخت کے بعد چیت بھی ہوئی،  نیز ان جگہوں کی قیمتیں  بھی  طے کرائی گئی،  مگر ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال  پر علم ہوا کہ کاغذات نے ہیرا پھیری (دو نمبر کاغذات ) ہیں ۔

اس مشکل میں درج ذیل باتوں کا شرعی حل مطلوب ہے:

1)پرانی قبروں کو نئی تدفین کے لیے کھولنا  شرعا  جائز ہے یا نہیں ؟

2)اگر ان پرانے قبروں کو نئی تدفین کے لیے کھولا جائے اور ان میں سے انسانی جسم کے اعضاء کا کچھ حصہ نکل آئے تو اس کا کیا کیا جائے؟

3)آج کل قبروں پر مرحومین کا نام وغیرہ لکھی تختی لگانے  کا اہتمام کیا جاتا ہے،  اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر پرانی قبروں میں نئے تدفین کی گنجائش ہو تو کسی خاتون کی قبر میں مرد کی یا مرد کی قبر میں خاتون کی  تدفین تدفین کرنا جائز ہوگا  یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  کسی  قبر میں میت  دفنانے کے بعد کسی شرعی ضرورت کے بغیر قبر کو کھولنا جائز نہیں ہے، اور نہ اس میں دوسری میت دفنانا جائز ہے،تاہم  اگر  قبر اتنی پرانی ہوچکی ہو کہ میت بالکل مٹی بن چکی ہو تو اس صورت میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس قبر کو کھود کر اس میں نئی میت کو دفن کرنا جائز  ہے،قبر کھولتے ہوئے  اس میں  اگر  سابقہ میت کی ہڈیاں وغیرہ کچھ  نکل آئے   تو انہیں قریب ہی دفن کردیا جائے یا اسی قبر میں ایک طرف علیحدہ کر کے ان ہڈیوں اور جدید میت کے درمیان مٹی کی آڑ بنادی جائے، لیکن اگر قبر اتنی پرانی نہ ہو کہ سابقہ میت  بالکل مٹی ہوچکی ہو تو پھر اس قبر کو کھود کر اس میں دوسری میت کو دفنانا جائز نہیں ہوگا، ایسی صورت میں برادری کے قبرستان میں جگہ تنگ ہونا  عذر نہیں ہوگا، بلکہ برادری کے قبرستان کو چھوڑ کر نئے قبرستان میں میت دفن کی جائے یا اس پر ہاتھ ڈیڑھ ہاتھ مٹی ڈال دی جائے پھر اس میں دوبارہ میت دفن کرنا شروع کردیں، اس صورت میں پہلی والی میت تقریباً ہاتھ ڈیڑھ ہاتھ نیچے ہوگی دوسری میت اس کے اوپر ہوگی تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہوگی۔

1)لہذا صورتِ مسئولہ  میں اگر  قبر اتنی پرانی ہے کہ غالب گمان یہ ہو کہ اس کی  میت بالکل مٹی بن چکی ہوگی تو  ایسی  قبر کو نئی تدفین کے لیے کھولنا جائز ہوگا۔

2)پرانی قبر کھولتے وقت   اگر ہڈی وغیرہ نکل آئے تو اس کو قریب میں دفن کیا جائے یا اسی قبر میں ایک طرف رکھ کر  ان ہڈیوں اور نئی میت کے درمیان مٹی کی آڑ بنادی جائے۔

3)ماقبل تفصیل کے مطابق اگر پرانی قبر ایسی ہو کہ اس کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ میت مٹی بن چکی ہوگی تو ایسی صورت میں مرد کی قبر میں خاتون یا خاتون کے قبر میں مرد دفنایا جاسکتا ہے، لیکن اگر کوئی ہڈی  نکل آئے تو اس کو الگ دفنانا ضروری ہے یا وہی ایک طرف کرکے درمیان میں مٹی کی آڑ بنانا ضروری ہے۔

2، 1)فتاویٰ شامی میں ہے:

" لايدفن اثنان في قبر إلا لضرورة، وهذا في الابتداء، وكذا بعده. قال في الفتح: ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم، إلا أن لا يوجد، فتضم عظام الأول، ويجعل بينهما حاجز من تراب... قال في الحلية: وخصوصاً إن كان فيها ميت لم يبل؛... وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اهـ: وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية: إذا صار الميت تراباً في القبر يكره دفن غيره في قبره ؛ لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية، ثم دفن غيره فيه تبركاً بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. اهـ. قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلى؛ إذ لا يمكن أن يعد لكل ميت قبر لا يدفن فيه غيره، وإن صار الأول تراباً لاسيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبور السهل والوعر، على أن المنع من الحفر إلى أن يبقى عظم عسر جداً وإن أمكن ذلك لبعض الناس، لكن الكلام في جعله حكماً عاماً لكل أحد، فتأمل."

(کتاب الصلوة، باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، ج:2، ص:233، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولا يدفن اثنان أو ثلاثة في قبر واحد إلا عند الحاجة فيوضع الرجل مما يلي القبلة ثم خلفه الغلام ثم خلفه الخنثى ثم خلفه المرأة ويجعل بين كل ميتين حاجز من التراب، كذا في محيط السرخسي، وإن كانا رجلين يقدم في اللحد أفضلهما، هكذا في المحيط....وكذا إذا كانتا امرأتين، هكذا في التتارخانية.

ولو بلى الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه، كذا في التبيين."

(کتاب الصلوة،الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مكان إلى آخر،  ج:1، ص: 166،  ط:دارالفکر)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح  میں ہے:

"ولا بأس بدفن أكثر من واحد" في قبر واحد "للضرورة" قال قاضيخان "ويحجز بين كل اثنين بالتراب" هكذا أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض الغزوات ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره، ولايجوز كسر عظامه ولا تحويلها ولو كان ذمياً، ولاينبش وإن طال الزمان."

(‌‌‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، فصل في حملها ودفنها، ص:227، ط:المكتبة العصرية)

3)حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح  میں ہے:

"وسئل أبو بكر الأسكافي عن المرأة تقبر في قبر الرجل؟ فقال: إن كان الرجل قد بلي ولم يبق له لحم ولا عظم جاز، وكذا العكس، وإلا فإن كانوا لايجدون بداً يجعلون عظام الأول في موضع، وليجعلوا بينهما حاجزاً بالصعيد."

(كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، فصل في حملها و دفنها، ص: 612 ، 613، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں