بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیون سے سر کی مالش کرانے کا حکم


سوال

میں ایک کمپنی میں پیون (چپڑاسی) ہوں، جس کے پانچ مالکان ہیں ،ہم ٹوٹل ۴ پیون(چپڑاسی) ہیں،ہمیں جب کام پر رکھا گیا تھا یہ بتایا گیا تھا کہ چائے پانی، برتن دھونے اور صفائی  اور باہر جاکر سامان وغیرہ لانا ہے۔ ۴ پیون میں سے ۳ کے ذمہ الگ الگ ۲ بھائی اور ایک والد کی خدمت لگا دی ہے، میرے ذمہ ایک بھائی کی خدمت میں کمرے میں سب لوگوں کے سامنے سر پر تیل کی  مالش اور جسم دبانا ہے اور جب ان کا سونے کا ارادہ ہو تو بند کمرے میں جسم دبانا ہے ، اس سے میرے عزتِ نفس کو تکلیف ہوتی ہے ، میں نے یہ کام کبھی نہیں کیا ،سب لوگوں کے سامنے مجبوری کی وجہ سے کر رہا ہوں ،  اور جب نیٹ پر موبائل میں زوم میٹنگ ہوتی ہے باہر کے لوگ بھی مجھے دیکھتے ہیں ۔ جو تنخواہ ہمیں ملتی ہے اس کے علاوہ پوری کمپنی کو ہدیہ وغیرہ بھی دیتے ہیں اور کچھ مخصوص لوگوں کو ڈبل ہدیہ اور راشن بھی دیتے ہیں جس میں میں بھی شامل ہوں۔۲ سال سے مالش کر رہا ہوں۔

سوال :کیا مالکان کا یہ عمل صحیح ہے؟

سوال:کیا مجھے اس خدمت کے بدلہ جو تکلیف ہو رہی ہے اس کا معاوضہ لینا چاہیے؟ ہم منہ سے کچھ نہیں بولتے۔

جواب

واضح رہے کہ  ملازمت پر رکھتے وقت جس نوعیت کے کام کے لیے ملازم کو رکھا جاتا ہے ملازم پر صرف اسی نوعیت کا  کام کرنا واجب اور ضروری ہوتا ہے،   اس کے علاوہ دوسرا کام کرنا اس پر واجب اور ضروری نہیں ہوتا  اور نہ ملازمت پر رکھنے والا دوسری قسم کے کام پر مجبور کر سکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل کو ملازمت پر رکھتے وقت  پیون کے طور پر ملازم رکھا گیا  تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ سائل  کے ذمہ  چائے پانی، برتن دھونے اور صفائی  اور باہر جاکر سامان وغیرہ لانا ہے ،  سر کی مالش اور جسم دبوانے کی    کوئی  صراحت  نہیں تھی اور نہ عرف میں پیون کا یہ کام ہے تو سائل پر یہ خدمت سر انجام دینا ضروری نہیں ہے اور     نہ کمپنی مالکان کا سائل کو مجبور کرنا جائز ہے، بلکہ کمپنی  کے مالکان پر لازم ہے کہ وہ سائل سے طے شدہ کام ہی کروائیں اور سائل کو اس کی تنخواہ دیں یا پھر سائل کے ساتھ پچھلا معاملہ ختم کر کے اس کے ساتھ دوبارہ ملازمت کا معاملہ کریں اور اس میں ان خدمات کی بھی صراحت کردیں اور اس نئے معاملہ کے وقت سائل کے پاس اختیار ہوگا چاہے تو وہ اس معاملہ کو قبول کرے اور چاہے تو اس کمپنی میں نوکری نہ کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أقول: سره أنه أوقع الكلام على المدة في أوله فتكون منافعه للمستأجر في تلك المدة فيمتنع أن تكون لغيره فيها أيضا، وقوله بعد ذلك لترعى الغنم يحتمل أن يكون لإيقاع العقد على العمل فيصير أجيرا مشتركا؛ لأنه من يقع عقده على العمل، وأن يكون لبيان نوع العمل الواجب على الأجير الخاص في المدة، فإن الإجارة على المدة لا تصح في الأجير الخاص ما لم يبين نوع العمل؛ بأن يقول: استأجرتك شهرا للخدمة أو للحصاد فلا يتغير حكم الأول بالاحتمال فيبقى أجير وحد ما لم ينص على خلافه بأن يقول: على أن ترعى غنم غيري مع غنمي وهذا ظاهر أو أخر المدة بأن استأجره ليرعى غنما مسماة له بأجر معلوم شهرا فحينئذ يكون أجيرا مشتركا بأول الكلام لإيقاع العقد على العمل في أوله، وقوله شهرا في آخر الكلام يحتمل أن يكون لإيقاع العقد على المدة فيصير أجير وحد، ويحتمل أن يكون لتقدير العمل الذي وقع العقد عليه فلا يتغير أول كلامه بالاحتمال ما لم يكن بخلافه."

(کتاب الاجارۃ ،باب ضمان الاجیر ج نمبر ۶  ص نمبر ۷۰،دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والإجارة على العمل إذا كان معلوما صحيحة بدون بيان المدة ‌والإجارة ‌على ‌المدة لا تصح إلا ببيان نوع العمل."

(کتاب الاجارۃ، باب الثامن و العشرون ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۰۰، دار الفکر)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وقالوا في الخياط: إن السلوك عليه؛ لأن عادتهم جرت بذلك، وقالوا في الدقيق الذي يصلح به الحائك الثوب: إنه على صاحب الثوب، فإن كان أهل بلد تعاملوا بخلاف ذلك فهو على ما يتعاملون، وقالوا في الطباخ إذا استأجر في عرس: إن إخراج المرق عليه ولو طبخ قدرا خاصة ففرغ منها فله الأجر، وليس عليه من إخراج المرق شيء، وهو مبني على العادة يختلف باختلاف العادة، وقالوا فيمن تكارى دابة يحمل عليها حنطة إلى منزله فلما انتهى إليه أراد صاحب الحنطة أن يحمل المكاري ذلك فيدخله منزله وأبى المكاري، قالوا: قال أبو حنيفة: عليه ما يفعله الناس ويتعاملون عليه."

(کتاب الاجارۃ ، فصل فی حکم الاجارہ ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۰۹، دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی یندیہ  میں ہے:

"والأصل أن الإجارة إذا وقعت على عمل فكل ما كان من توابع ذلك العمل ولم يشترط على الأجير في الإجارة فالمرجع فيه إلى العرف. كذا في المحيط."

(کتاب الاجارۃ باب حادی عشر ،ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۳۴،دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وللمستأجر أن يكلف العبد المستأجر كل شيء من خدمة البيت ويأمره أن يغسل ثوبه وأن يخيط ويخبز ويعجن إذا كان يحسن ذلك ويعلف دابته وينزل بمتاعه من ظهر بيته أو يرقى إليه ويحلب شاته ويستقي له من البئر وليس له أن يقعده خياطا ولا في صناعة من الصناعات، وإن كان حاذقا في ذلك وليس على المستأجر طعامه إلا أن يتطوع بذلك أو يكون فيه عرف ظاهر وله أن يأمره بخدمة أضيافه وله أن يؤاجره من غيره للخدمة."

(کتاب الاجارۃ باب حادی عشر ،ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۳۴،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں