بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا پُل صراط کی باریکی اور اس کی مسافت سے متعلق روایات پر ایمان لانا ضروری ہے


سوال

عوام الناس میں ایک لطیفہ مشہور ہے ، جب کسی سے پل صراط کے بارے میں ذکر کیا جاتا ہے کہ وہ بال سے باریک تلوار سے تیز ہے،  1500 سال کا سفر ہے ، 500 سال اونچائی، 500 سال سیدھا، پانچ سو سال اترائی، تو سننے والا اکثر کہہ دیتا ہے کہ یہ تو نہ گزارنے والی باتیں ہوئیں،تو اس قسم کی باتیں کہنے سے کیا ایمان میں کوئی فرق تو نہیں آتا؟

جواب

واضح رہے کہ  پل صراط کا بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہونا صحیح احادیث سے ثابت ہے، نیز پل صراط کی مسافت کے حوالے سے متعدد روایات  ملتی ہیں،   لیکن  وہ روایات جن میں   پل صراط کی کیفیت کے بارے میں  بال سے زیادہ باریک ہونے کا بیان  ہے وہ روایتیں درجہ تواتر کو نہیں پہنچتیں ،لہذا پل صراط پر ایمان لانا ضروری توہے مگر اس کی کیفیت  کیا ہوگی اس کا علم اللہ کے سپرد ہے   ، صورت مسئولہ  میں سننے والے کا یہ کہنا کہ’’ یہ تو نہ گزرنے والی بات ہے  ‘‘ کہنے   سے  استخفاف او ر توہین  کا  پہلو نمایاں ہوتا ہے؛  اس لیے  ایسی باتوں سے اجتناب  لازم ہے۔

لوامع الأنوار البهيةمیں ہے: 

" وأخرج مسلم عن أبي سعيد الخدري قال: بلغني أن الجسر أدق من الشعر، وأحد من السيف.

وأخرج ابن ماجه عن أبي سعيد أيضا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " «وضع الصراط بين ظهراني جهنم عليه حسك كحسك السعدان ثم يستجيز الناس، فناج مسلم، ومخدوش به ثم ناج، ومحتبس به، ومنكوس فيها» "" وأخرج ابن عساكر عن الفضيل بن عياض رحمه الله تعالى قال: بلغنا أن الصراط مسيرة خمسة عشر ألف سنة، خمسة آلاف صعود، وخمسة آلاف هبوط، وخمسة آلاف مستو، أدق من الشعرة، وأحد من السيف على متن جهنم لا يجوز عليه إلا ضامر مهزول من خشية الله، وفي بعض الآثار أن طول الصراط مسيرة ثلاث آلاف سنة، ألف منها صعود، وألف منها هبوط، وألف منها استواء

(تنبيهات)

(الأول) اتفقت الكلمة على إثبات الصراط في الجملة، لكن أهل الحق يثبتونه على ظاهره من كونه جسرا ممدودا على متن جهنم أحد من السيف وأدق من الشعر، وأنكر هذا الظاهر القاضي عبد الجبار المعتزلي، وكثير من أتباعه زعما منهم أنه لا يمكن عبوره، وإن أمكن ففيه تعذيب، ولا عذاب علىالمؤمنين والصلحاء يوم القيامة، وإنما المراد طريق الجنة المشار إليه بقوله تعالى: {سيهديهم ويصلح بالهم} [محمد: 5] ، وطريق النار المشار إليه بقوله تعالى: {فاهدوهم إلى صراط الجحيم} [الصافات: 23] .ومنهم من حمله على الأدلة الواضحة والمباحات والأعمال الرديئة ليسأل عنها ويؤاخذ بها.وكل هذا باطل وخرافات؛ لوجود رد النصوص على حقائقها، وليس العبور على الصراط بأعجب من المشي على الماء أو الطيران في الهواء، والوقوف فيه.وقد أجاب صلى الله عليه وسلم عن سؤال حشر الكافر على وجهه بأن القدرة صالحة لذلك.وأنكر العلامة القرافي كون الصراط أدق من الشعر وأحد من السيف، وسبقه إلى ذلك شيخه العز بن عبد السلام، والحق أن الصراط وردت به الأخبار الصحيحة، وهو محمول على ظاهره بغير تأويل كما ثبت في الصحيحين والمسانيد والسنن والصحاح مما لا يحصى إلا بكلفة من أنه جسر مضروب على متن جهنم يمر عليه جميع الخلائق، وهم في جوازه متفاوتون.وقال المنكر لكون الصراط أدق من الشعر وأحد من السيف: هذا إن ثبت حمل على غير ظاهره لمنافاته للأحاديث الأخر من قيام الملائكة على جنبتيه، وكون الكلاليب والحسك فيه، وإعطاء كل من المارين عليه من النور قدر موضع قدميه.قال القرافي: والصحيح أنه عريض، وقيل طريقان يمنى ويسرى، فأهل السعادة يسلك بهم ذات اليمين، وأهل الشقاوة يسلك بهم ذات الشمال، وفيه طاقات كل طاقة تنفذ إلى طبقة من طبقات جهنم، وجهنم بين الخلق وبين الجنة، والجسر على ظهرها منصوب فلا يدخل أحد الجنة حتى يمر على جهنم، وهو معنى قوله تعالى: {وإن منكم إلا واردها} [مريم: 71] على أحد الأقوال.ثم قال القرافي تبعا للحافظ البيهقي: كون الصراط أدق من الشعر وأحد من السيف لم أجده في الروايات الصحيحة، وإنما يروى عن بعض الصحابة، فيؤول بأن أمره أدق من الشعر، فإن يسر الجواز عليه وعسره على قدر الطاعات والمعاصي، ولا يعلم حدود ذلك إلا الله تعالى، وقد جرت العادة بضرب دقة الشعر مثلا للغامض الخفي، وضرب حد السيف لإسراع الملائكة في المضي لامتثال أمر الله، وإجازة الناس عليه.

ورد هذاالإمام القرطبي، وغيره من أئمة الآثار، وقد أخرج مسلم تلك الزيادة في صحيحه عن أبي سعيد بلاغا، وليست مما للرأي والاجتهاد فيه مجال فهي مرفوعة، وقد مر من الأخبار ما يوجب الإيمان بذلك، ثم إن القادر على إمساك الطير في الهواء قادر على أن يمسك عليه المؤمن ويجريه ويمشيه، على أنه أخرج الإمام عبد الله بن المبارك، وابن أبي الدنيا عن سعيد بن أبي هلال قال:بلغنا أن الصراط يوم القيامة يكون على بعض الناس أدق من الشعر، وعلى بعض مثل الوادي الواسع، وأخرج أبو نعيم عن سهل بن عبد الله التستري قال:من دق الصراط عليه في الدنيا عرض عليه في الآخرة، ومن عرض عليه الصراط في الدنيا دق له في الآخرة."

(الباب الرابع،فصل في أمر المعاد،ج:2، ص؛207، ط:دارالکتب العلمیة)

تفسير ابن رجب الحنبليمیں ہے:

"قال الفضيل لبشر: بلغني أن الصراط مسيرة خمسة عشر ألف فرسخ.فانظر كيف تكون عليه.قال بعض السلف: بلغنا أن الصراط يكون على بعض الناس أدق منالشعر، وعلى بعضهم كالوادي الواسع.قالسهلالتستري: من دق على الصراط في الدنيا عرض له في الآخرةومن عرض له في الدنيا الصراط دق عليه في الآخرة.والمعنى: أن من صبر نفسه على الاستقامة على الصراط ولم يعرج عنه يمنةويسرة، ولا كشف شيئا من الستور المرخاة على جانبيه - مما تهواه النفوس من الشهوات أو الشبهات - بل سار على متن الصراط المستقيم حتى أتى ربهوصبر على دقة ذلك، عرض له الصراط في الآخرة.ومن وسع على نفسه الصراط في الدنيا، فلم يستقم على جادته - بل كشف ستوره المرخاة من جانبيه يمنة ويسرة، ودخل مما شاءت نفسه من الشهوات والشبهات - دق عليه الصراط في الآخرة،فكان عليه أدق من الشعر."

(تحت تفسیر سورۃ الفاتحة، ج:1، ص:91، ط:دار العاصمة)

الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبويةمیں ہے:

"أما كيفية ضرب الصراط ـ أعاننا الله على اجتيازه ـ فقد قال الفضيل بن عياض رحمه الله كما رويناه في ترجمته من تاريخ دمشق لابن عساكر: بلغنا أن الصراط مسيرة خمس عشرة ألف سنة، خمسة آلاف صعود، وخمسة آلاف هبوط، وخمسة آلاف مستوى، أدق من الشعرة وأحد من السيف، على متن جهنم، لا يجوز عليه إلا ضامر مهزول من خشية الله. وبكى الفضيل.وعند ابن أبي الدنيا من طريق محمد بن صبيح ابن السماك الواعظ، عصري الفضيل عن بعض الزهاد أنه قال: بلغني أن الصراط ثلاثة آلاف سنة: ألف سنة يصعد الناس إليه، وألف سنة يستوي الناس، وألف سنة يهبط الناس، وهما معضلان، يعتضد أحدهما بالآخر، واختلافهما في المسافة، يمكن الجمع بينه من جهة البطء والإسراع، فأمر الناس في ذلك مختلف، فمنهم كما ثبت من يمر كطرف العين، وكالبرق، وكالريح، وكالطير، وكالفرس المجرى، وسعيًا، ومشيًا، وحبوًا، وزحفًا."

(وسئلت عن كيفية ضرب الصراط، ج:3، ص:903، رقم الحدیث،242،ط:دار الراية)

فتح الباریمیں ہے:

"وجاء عن الفضيل بن عياض قال بلغنا أن ‌الصراط ‌مسيرة خمسة عشر ألف سنة خمسة آلاف صعود وخمسة آلاف هبوط وخمسة آلاف مستوى أدق من الشعرة وأحد من السيف على متن جهنم لا يجوز عليه إلا ضامر مهزول من خشية الله أخرجه بن عساكر في ترجمته وهذا معضل لا يثبت وعن سعيد بن أبي هلال قال بلغنا أن الصراط أدق من الشعر على بعض الناس ولبعض الناس مثل الوادي الواسع أخرجه بن المبارك وبن أبي الدنيا وهو مرسل أو معضل."

(قوله باب الصراط جسر جهنم،ج:11، ص:454، ط:دار المعرفة)

فتاوی ہندیه میں  ہے:

"(ومنها ما يتعلق بيوم القيامة وما فيها) ‌من ‌أنكر ‌القيامة، ‌أو ‌الجنة، ‌أو ‌النار، ‌أو ‌الميزان، ‌أو ‌الصراط، ‌أو ‌الصحائف ‌المكتوبة ‌فيها ‌أعمال ‌العباد ‌يكفر، ولو أنكر البعث فكذلك، ولو أنكر بعث رجل بعينه لا يكفر كذا ذكر الشيخ الإمام الزاهد أبو إسحاق الكلاباذي - رحمه الله تعالى - كذا في الظهيرية."

( كتاب السير، الباب السابع في احكام المرتدين، مطلب فِي موجبات الكفرِ أنواع منها مَا يتعلق بالإِيمان وَالإِسلام، ج:2، ص: 274، ط: دار الفكر)

الإعلام بقواطع الإسلام میں ہے:

" وأماإنكار الصراط والميزان ونحوهما مما تقول المعتزلة قبحهم الله تعالى بإنكاره فإنه لا كفر به . إذ المذهب الصحيح انهم وسائر المبتدعة لا يكفرون وإنكار الجنة والنار الآن لا كفر به لأن المعتزلة ينكرونها الآن ، وأما إنكار وجودهما يوم القيامة فالكفر به ظاهر لأنه تكذيب للنصوص المتواترة القطعية."

(الفصل الأول، ص:67، ط:دار الکتب العلمیة)

عقائد اسلامتالیف مولانا ادریس کاندھلویؒ میں ہے:

"عقیده هفتم

پل صراط حق ہے وہ ایک پل ہوگا جس کو دوزخ کی پشت پر قائم کریں گے جو بال سے زیادہ بار یک اور تلوار سے زیادہ تیز ہو گا وزن اعمال کے بعد سب لوگوں کو اس پر سے گزرنے کا حکم ہوگا وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا(۱) مومن اس پل سے عبور کر کے بہشت میں جائیں گے اور کافر پھسل پھسل کر دوزخ میں گریں گےتفصیل کے لئے اتحاف شرح احیاء العلوم صفحہ ۳۸ ۳۹ جلد ۲ دیکھئے ۔ علامہ زبیدی شرح احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ پل صراط کا بال سے زیادہ باریک ہونا اور تلوار سے زیادہ تیز ہونا صحیح مسلم میں ابو سعید خدری سے اور مسند احمد میں حضرت عائشہ سے مروی ہے اور علاوہ ازیں انس بن مالک اور عبد اللہ بن مسعود اور سلمان فارسی سے بھی منقول ہے اور معتزلہ پل صراط کے اور عامہ خلائق کے اس پر سے عبور و مرور کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسی بار یک چیز پر چلنا اور اس پر سے گزرنا ناممکن ہے۔ اہل حق کہتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنی قدرت کاملہ سے اپنے بندوں کو ایسی بار یک چیز پر سے گزارنے پر بھی قادر ہے وَ مَاذَلِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِیز (۱) اور عالم آخرت کی تو ہر چیز عجیب و غریب ہے اور وہم و خیال سے بلند اور برتر ہے۔ عالم آخرت کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے جو خدا پرندوں کو ہوا میں چلانے اور اڑانے پر قادر ہے وہ ایک ایسے باریک پل پر چلانے پر بھی قادر ہے، پل صراط بہر حال ہو اسے زیادہ مستحکم ہے اور عقلاً اس پر سے گذرنا جائز اور ممکن ہے محال نہیں۔ لیکن یہ روایت اور یہ کیفیت جس میں پل صراط کا بال سے زیادہ باریک ہونا آیا ہے وہ روایت درجہ تواتر کو نہیں پہنچی لہذا پل صراط پر تو ایمان لانا ضروری ہے مگر اس کیفیت خاصہ پر ایمان لانا ضروری نہیں ۔ دیکھو اتحاف شرح احیاء العلوم صفحہ ۲۲۰ جلد ۲ و مسامره شرح مسایرہ صفحہ ۲۸۴ اور شرح عقیدہ سفارینیہ صفحہ ۱۸۳ جلد ۲ ، اور اضاءةالدجة في شرح عقائد اہل السنته صفحه ۱۲۴ و صفحه ۱۲۵ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ صراط کا راستہ محسوس ہوگا اور لوگ اس کو بچشم سرور دیکھیں گے تمام انبیاء سابقین نے اور پھر آخر میں خاتم النبین محمد اللہ نے اس کی خبر دی ہے اور اس خبر کو ایسا صاف اور واضح اور صریح بیان کیا ہے جس میں کسی شک اور شبہ اور تاویل کی گنجائش نہیں۔ لہذا امت پر فرض ہے کہ وہ پل صراط کو حقیقی اور حسی طور پر اس کو مانے اور اس کی تصدیق کرے کہ وہ حقیقۃ ایک راستہ ہے جس سے قیامت کے دن گذرنے کا حکم ہوگا۔ جو شخص جس درجہ دنیا میں صراط مستقیم یعنی راہ اسلام پر قائم رہا اسی درجہ وہ بآسانی پل صراط سے گزر سکے گا۔ اور بعض لوگ پل صراط کے بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہونے کو تسلیم نہیں کرتے اور ان احادیث کی کہ جن میں پل صراط کا بال سے زیادہ بار یک ہونا اور تلوار سے زیادہ تیز ہوتا آیا ہے یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس قسم کی احادیث سے مراد یہ ہے کہ پل صراط پر سے گزرنا اس قدر مشکل ہے جیسے کسی ایسی چیز سے گزرنا جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہو، مشکل ہے، اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ پل صراط عریض ( چوڑا) ہوگا اور اس میں دو راستے ہوں گے ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب اہل سعادت اور اصحاب یمین دائیں طرف سے گزریں گے اور اصحاب شمال بائیں جانب سے، بہر حال پل صراط حق ہے جس پر ہر مومن کو ایمان لانا ضروری ہے مگر پل صراط کی یہ بار یکی درجه تو اتر کو نہیں پہنچی اس لئے پل صراط کی اس خاص کیفیت اور اس خاص صفت پر ایمان لاناضروری نہیں۔ واللہ سبحانہ و تعالی اعلم۔"

(حصہ دوم،ص:409، ط:ادارہ اسلامیات)

احکام اسلام عقل کی نظر میں ہے:

"حقیقت پل صراط آخرت : عالم آخرت میں ہر ایک سعید اور شقی کو متشکل کر کے دکھلایا جائے گا کہ وہ دنیا میں سلامتی کی راہوں میں چلایا اس نے ہلاکت اور جہنم کی راہیں اختیار کیں سو اس دن وہ سلامتی کی راہ جو کہ صراط مستقیم اور نہایت باریک راہ ہے اور جس سے تجاوز کرنا اور ادھر ادھر ہونا در حقیقت جہنم میں گرنا ہے تمثل کے طور پر نظر آئے گی اور جو لوگ دنیا میں صراط مستقیم پر چل نہیں سکتے وہ اس صراط پر بھی چل نہیں سکیں گے کیونکہ وہ صراط در حقیقت دنیا کی روحانی صراط کا ہی ایک نمونہ ہے اور جیسا کہ ابھی روحانی آنکھوں سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے صراط کے دائیں بائیں در حقیقت جہنم ہے اگر ہم صراط کو چھوڑ کر داہنے طرف ہوئے تب بھی جہنم میں گرے اور اگر بائیں طرف ہوئے تب بھی گرے اور اگر سیدھے صراط مستقیم پر چلے تب جہنم سے بچ گئے۔ یہی صورت جسمانی طور پر عالم آخرت میں ہمیں نظر آئے گی اور ہم آنکھوں سے دیکھیں گے کہ در حقیقت ایک پل صراط ہے جو پل کی شکل پر دوزخ پر بچھایا گیا ہے جس کے داہنے بائیں دوزخ ہے تب ہم مامور کئے جائیں گے کہ اس پر چلیں سو اگر ہم دنیا میں صراط پر چلتے رہے ہیں اور اپنے داہنے بائیں نہیں چلے تو ہم کو اس صراط سے کوئی خوف نہیں اور نہ جہنم کی بھاپ ہم تک پہنچے گی اور نہ کوئی فزع اور خوف ہمارے دل پر طاری ہو گا بلکہ نورا یمان کی قوت سے چمکتی ہوئی برق کی طرح ہم اس سے گزر جائیں گے۔ کیونکہ پہلے دنیا میں اس سے گزر چکے ہیں۔"

(حصہ سوم،ص؛266، ط:عمرفاروق)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144510100782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں