بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پل صراط لي حقیقت کیا ہے؟


سوال

1۔ پل صراط کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ بال سے زیادہ باریک تلوار سے تیز اور پانی سے زیادہ نرم ہے۔

2۔ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی مسافت پندرہ سو سال کی ہے پانچ سو سال چڑھائی ، پانچ سو سال ہموار اور   پانچ سو سال اترائی ہے۔

اس کی حقیقت کیا ہے؟

جواب

1۔ پل صراط کا بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہونا صحیح احادیث سے ثابت ہے، البتہ پانی سے زیادہ نرم ہونے والی بات کوشش کے باوجود نہیں مل سکی۔

صحیح مسلم میں ہے:

" عن أبي سعيد ...قيل: يا رسول الله! وما الجسر؟ قال "دحض مزلة. فيه خطاطيف وكلاليب وحسك. تكون بنجد فيها شويكة يقال لها السعدان. فيمر المؤمنون كطرف العين وكالبرق وكالريح وكالطير وكأجاود الخيل والركاب. فناج مسلم. ومخدوش مرسل. ومكدوس في نار جهنم. ... قال أبو سعيد: بلغني أن الجسر أدق من الشعرة وأحد من السيف."

( كتاب الإيمان، باب معرفة طريق الرؤية، ١ / ١٦٧، رقم الحديث: ١٨٣ - ت: عبد الباقي، ط: دار إحياء التراث العربي )

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ : یا رسول اللہ! پل کیسا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "ایک پھسلنے کا مقام ہو گا وہاں آنکڑے ہوں گے اور کانٹے جیسے نجد میں ایک کانٹا پایا جاتا ہے، جس کو سعدان کہتے ہیں یعنی (ٹیڑھے سر والا)، مؤمن اس پر سے گزریں گے بعض پلک جھپکنے کی سی تیز رفتاری میں، بعض بجلی کی طرح، بعض پرندے کی ماند، بعض تیز گھوڑوں کی طرح، بعض اونٹوں کی طرح اور بعض بالکل جہنم سے بچ کر پار ہو جائیں گے، اور بعض کچھ صدمہ اٹھائیں گے لیکن پار ہو جائیں گے اور بعض صدمہ اٹھا کر جہنم میں گر جائیں گے۔" ۔۔۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی کہ: "پل، بال سے زیادہ باریک ہو گا اور تلوار سے زیادہ تیز ہو گا۔"

2۔پل صراط کی مسافت کے حوالے سے متعدد روایات  ملتی ہیں،  کچھ میں مسافت تین ہزار سال مذکورہ ہے، جبکہ  ابن عساکر رحمہ اللہ نے تاریخ دمشق میں  حضرت  فضيل بن عیاض  رحمہ اللہ سے روایت نقل کی  ہے کہ: پُل صراط کاسفر پندرہ ہزا ر سال کی راہ ہے، پانچ ہزار سال اوپر چڑھنے کے، پانچ ہزار سال نیچے اُترنے کے اور پانچ ہزار سال(اس کی پشت پر)چلنے کے۔ اس پر سے وہ گزرسکے گا جو خوفِ خدا کے باعث ناتوان وکمزور ہوگا۔

تاريخ مدينة دمشق لابن عساكرمیں ہے:

" قال: وحدثنا ابن مروان حدثنا يحيى بن المختار قال رأيت بشرا الحافي يبكي فقلت ما يبكيك يا أبا نصر فقال دخلت على الفضيل ابن عياض ليلا وهو يبكي بمكة وهو يقول يا رب أعريتني وأعريت عيالي يا رب أجعتني وأجعت عيالي فبأي يد لي عندك حتى فعلت بي هذا ثم بكى حتى رحمته فقلت له يا أبا علي ما هذا البكاء فقال لي يا أبا نصر بلغني أن الصراط مسيرة خمسة عشر ألف عام خمسة آلاف صعود وخمسة آلاف نزول وخمسة آلاف مستوي أدق من الشعر وأحد من السيف على متن جهنم لا يجوزها إلا كل ضامر مهزول من خشية الله."

( حرف الفاء، ٥٦٣٠ - فضيل بن عياض بن مسعود بن بشر أبو علي التميمي، ٤٨ / ٣٩٥، ط: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع)

عمدة القاري شرح صحيح البخاريمیں ہے:

"وذكر عن ابن عمر: أن هذه العقبة جبل في جهنم، وعن الحسن وقتادة، هي عقبة في النار دون الجسر فاقتحموها بطاعة الله تعالى، وعن مجاهد والضحاك والكلبي، هي الصراط يضرب على جهنم كحد السيف مسيرة ثلاثة آلاف سنة سهلا وصعودا وهبوطا وأن بجنبيه كلاليب وخطأ طيف كشوك السعدان، وعن كعب: هي سبعون دركة في جهنم."

( كتاب تفسير القرآن، سورة لا أقسم، ١٩ / ٢٩٢، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101523

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں