بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پل صراط بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے کا کیا مطلب ہے؟


سوال

 1۔قَالَ أَبُو سَعِيدٍ بَلَغَنِي أَنَّ الْجِسْرَ أَدَقُّ مِنَ الشَّعْرَةِ وَأَحَدُّ مِنَ السَّيْفِ‏ (صحیح مسلم، حدیث 360)

اس روایت میں جو پلِ صراط کے بارے میں بات درج ہے کہ وہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ یہاں حقیقی بال اور تلوار مراد ہے یا صرف بطور مثال بیان کیا گیا ہے؟ اس بارے میں ذرا وضاحت فرمائیں۔

2۔ حکیم الاسلام مولانا قاری طیبؒ نے پلِ صراط کے بارے میں فرمایا ہے کہ: راستہ تو ایک ہی ہوگا لیکن اتنا وسیع ہو گا کہ لاکھوں چلیں گے مگر ایک دوسرے کے لیے آڑ نہیں بنے گا جس طرح دنیا میں ہزاروں انسان شریعت پر چل رہے ہیں شریعت کا راستہ تو ایک ہے مگر ایک دوسرے کے لیے آڑ نہیں بنتا۔ بال اور تلوار سے تو ایک مثال کے طور پر سمجھایا گیا ہے۔ ورنہ حقیقی بال اور تلوار مراد ہو تو چلنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ جیسے دیدارِ خداوندی کے بارے میں مثال دی گئی کہ مثل قمر لیلۃ البدر جیسے اندھیری رات کا چاند چمک رہا ہو لاکھوں انسان ایک وقت میں دیکھیں گے مگر ایک کے دیکھنے میں دوسرا حارج نہ ہو گا۔ لہٰذا بال اور تلوار کو شاہد پر قیاس کرنا ہی غلط ہے۔ یہ مطلب نہیں ہےکہ واقعی میں بال سے زیادہ باریک ہو گا بلکہ اس سے شریعت کی استقامت مراد ہے تلوار سے مراد نزاکت ہے۔ (مجالس حکیم الاسلام،ج1 ، ص 367، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ ملتان ، 1417ھ)

حکیم الاسلام مولانا قاری طیبؒ نے پلِ صراط کے بارے میں جو فرمایا ہے کہ یہاں حقیقی بال اور تلوار مراد نہیں ہے بلکہ مثال کے طور پر مراد ہے ۔ اس کی دلیل کیا ہے؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ پل صراط اور اس پر سے گزرنا برحق ہے، اس میں تمام اہل السنت والجماعت کا اتفاق ہے، کسی کا اختلاف نہیں، البتہ پل صراط  کی کیفیت کیا ہوگی؟ اس سے متعلق  مختلف اوصاف  متعدد روایات میں  بیان ہوئے ہیں، بعض اوصاف کا تقاضہ  ہے کہ پل صراط کشادہ ہو، جب کہ بعض روایات میں پل صراط کا بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہونا  صراحت کے ساتھ مذکور ہے، پس ان مختلف اوصاف کی وجہ سے پل صراط کی کیفیت کے حوالہ سے اہل علم کا اختلاف  ہے،  اہل علم کا ایک طبقہ  ان روایات کو جن  میں پل صراط کا بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہونا مذکور ہے، مجاز و تمثیل پر محمول کرتا، اور جن روایات  میں مذکور  اوصاف  پل صراط کے کشادہ ہونے کا تقاضہ کرتے ہیں، انہیں حقیقت پر محمول کرتا ہے، جبکہ اکثر  اہل علم حضرات    پل صراط سے متعلق تمام روایات کو حقیقت پر محمول کرتے ہیں ، تاہم اس کی کیفیت کیا ہوگی؟ اس کا علم اللہ کے سپرد ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

" قيل: يا رسول الله! وما الجسر؟ قال "دحض مزلة. فيه خطاطيف وكلاليب وحسك. تكون بنجد فيها شويكة يقال لها السعدان. فيمر المؤمنون كطرف العين وكالبرق وكالريح وكالطير وكأجاود الخيل والركاب. فناج مسلم. ومخدوش مرسل. ومكدوس في نار جهنم. ... قال أبو سعيد: بلغني أن الجسر أدق من الشعرة وأحد من السيف."

( كتاب الإيمان، باب معرفة طريق الرؤية، ١ / ١٦٧، رقم الحديث: ١٨٣ - ت: عبد الباقي، ط: دار إحياء التراث العربي )

ترجمہ:" حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ : یا رسول اللہ! پل کیسا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "ایک پھسلنے کا مقام ہو گا وہاں آنکڑے ہوں گے اور کانٹے جیسے نجد میں ایک کانٹا پایا جاتا ہے، جس کو سعدان کہتے ہیں یعنی (ٹیڑھے سر والا)، مؤمن اس پر سے گزریں گے بعض پلک جھپکنے کی سی تیز رفتاری میں، بعض بجلی کی طرح، بعض پرندے کی ماند، بعض تیز گھوڑوں کی طرح، بعض اونٹوں کی طرح اور بعض بالکل جہنم سے بچ کر پار ہو جائیں گے، اور بعض کچھ صدمہ اٹھائیں گے لیکن پار ہو جائیں گے اور بعض صدمہ اٹھا کر جہنم میں گر جائیں گے۔" ۔۔۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی کہ: "پل، بال سے زیادہ باریک ہو گا اور تلوار سے زیادہ تیز ہو گا۔"

بدر التمام شرح لامية شيخ الإسلاممیں ہے:

" المسألة الثانية: ما صفة الصراط؟

جاء في صحيح مسلم عن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - قال: «بلغني أن الجسر أدق من الشعرة وأحد من السيف» ، هذا الأثر جاء بلاغا وليس على شرط الحديث الصحيح، وقد جاء الحديث مرفوعا من حديث أنس عند البيهقي لكنه ضعيف، وصح عن ابن مسعود - رضي الله عنه - موقوفا عليه عند «الحاكم» بلفظ: «الصراط كحد السيف مدحضة مزلة».

وجاء عند «الحاكم» أيضا عن سلمان - رضي الله عنه - أنه قال: «يوضع الصراط مثل حد الموسى» أي: الموس بالعامية.

إذا جاء في وصف الصراط ثلاثة آثار عن الصحابة - رضي الله عنهم - الأول: عن أبي سعيد، والثاني: عن ابن مسعود وسنده إلى ابن مسعود صحيح، والثالث: عن سلمان وسنده لا بأس به، فعلى هذا تكون الأوصاف الواردة في الصراط موقوفة وليست مرفوعة، ولهذا أنكر بعض الأئمة كالقرافي والعز بن عبدالسلام والبيهقي أن يكون الصراط أدق من الشعرة، وأحد من السيف وحجة هؤلاء أنه لم يثبت فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء.

ولكن هل يلزم من كون الشيء لم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم عدم الإثبات كما في هذه المسألة؟

 الجواب: ذهب أكثر أهل العلم إلى إثبات أن الصراط أدق من الشعرة، وأحد من السيف؛ لهذه الآثار الثلاثة التي لها حكم المرفوع، والصحابة - رضي الله عنه - لا يمكن أن يتكلموا بهذا إلا بعلم، فلعلهم أخذوه عن النبي صلى الله عليه وسلم، خاصة أن مثل هؤلاء لم يشتهر عنهم الرواية عن بني إسرائيل، كما اشتهر عن عبدالله بن والنار يصلاها الشقي بحكمة ... وكذا التقي إلى الجنان سيدخلالشرح

عمرو ب، وينبغي أيضا أن يعلم أنه لا ينكر على من خالف في هذه المسألة، ولذلك ذهب بعض أهل العلم كالعز بن عبد السلام وغيره إلى أن الصراط عريض وليس بدقيق، والمقصود أن المسألة فيها خلاف، لكن الصواب والأقرب، والله تعالى أعلم، ثبوت هذه الأوصاف التي سبقت."

( صفة الصراط، ص: ١٠٣ - ١٠٥، ط: مركز النخب العلمية - القصيم - بريدة)

2۔ حضرت قاری طيب صاحب رحمہ اللہ  نے مذکورہ روایت کے حوالے سے جو بات بیان فرمائی ہے، وہ اہل علم کے اس طبقہ کی رائے کے  مطابق ہے، جو  اسے مجاز و تمثیل پر محمول کرتا  ہ3، جیساکہ  امام بیہقی رحمہ اللہ نے  شعب الإيمان میں ذکر کیا ہے کہ  اس سے مراد اس پر سے گزرنے کے کٹھن  ہونے کی طرف اشارہ کرنا ہے، یعنی اعمال کی بنیاد پر  پل صراط پر سے گزرا جائے گا، اور اس پر سے گزرنا ایسا دشوار ہوگا، جیسا کہ بال پر سے گزرنا دشوار ہوتا ہے،پس  اسی دشواری کی وجہ سے  مذکورہ روایت میں  پل صراط کو  بال کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے،  نہ کہ پل صراط کی کنہ حقیقت بیان کی گئی ہے، کیوں کہ  اس کی صحیح کیفیت  و حقیقت تو اللہ ہی کے علم میں ہے۔

اسی طرح سے پل صراط کو جو تلوار سے زیادہ تیز قرار دیا گیاہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی جانب سے جو حکم اس پر نافذ ہوگا، اس سے مفر نہ ہوگا، جیسے تلوار کا فیصلہ کن  وار جس پر پڑتا ہے، تو اس سے مفر نہیں ہوتا۔

شعب الإيمان للبيهقيمیں ہے:

"قال: الحليمي رحمه الله: قوله في الصراط إنه أدق من الشعرة معناه أن أمر الصراط والجواز عليه أدق من الشعر، أي يكون عسره ويسره على قدر الطاعات والمعاصي، ولا يعلم حدود ذلك إلا الله عز وجل لخفائها وغموضها، وقد جرت العادة بتسمية الغامض الخفي دقيقا، وضرب المثل له بدقة الشعرة، وقوله إنه «أحد من السيف» فقد يكون معناه-والله أعلم-أن الأمر الدقيق الذي يصدر من عند الله إلى الملائكة في إجازة الناس على الصراط يكون في نفاذ حد السيف، ومضيه منهم إلى طاعته وامتثاله، ولا يكون له مرد، كما أن السيف إذا نفذ بحده وقوة ضاربه في شيء، لم يكن له بعد ذلك مرد.

قال البيهقي رحمه الله: وهذا اللفظ من الحديث لم أجده في الروايات الصحيحة.

وروي عن زياد النميري عن أنس مرفوعا: " الصراط كحد الشفرة أو كحد السيف". وهي أيضا رواية ضعيفة.

وروي بعض معناه عن عبيد بن عمير  عن النبي - صلى الله عليه وسلم - مرسلا وجاء عنه من قوله.

وروي عن عبد الله بن مسعود أنه قال: "الصراط في سواء جهنم مدحضة مزلة

كحد السيف المرهف".

وروي عن سعيد بن أبي هلال أنه قال: بلغنا أن الصراط يوم القيامة وهو الجسر يكون على بعض الناس أدق من الشعر وعلى بعضهم مثل الدار والوادي الواسع.

فيحتمل أن يكون لشدة مروره عليه وسقوطه عنه يشبه بذلك والله أعلم."

 ( التاسع من شعب الإيمان «وهو باب في أن دار المؤمنين ومأواهم الجنة، ودار الكافرين ومآبهم النار»، ١ / ٥٦٥ - ٥٦٦، رقم الحديث: ٣٦١، ط:  مكتبة الرشد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں