بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

pubg کھیلنا ناجائز ہے؟ اگر ہے تو کیوں ہے؟


سوال

pubg   کھیلنا نا جائز ہے؟  اگر ہے تو کیوں ہے ؟ 

جواب

                                          واضح رہے کہ  پب جی(PUBG)گیم کئی طرح کے شرعی و دیگر مفاسد پر مشتمل ہے، اس کے کھیلنے میں نہ کوئی دینی اور نہ ہی کوئی دنیوی فائدہ ہے، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ، یہ محض لہو لعب اور وقت گزاری  کے لیے کھیلا جاتا ہے، جو لایعنی کام ہے، اور اس کو کھیلنے والے عام طور پر اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اس کا نشہ سا ہوجاتا ہے، اور ایسا انہماک ہوتا ہے کہ وہ کئی دینی بلکہ دنیوی امور سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، شریعتِ مطہرہ ایسے لایعنی لہو لعب پر مشتمل کھیل کی اجازت نہیں دیتی، جب کہ اس میں مزید شرعی قباحت یہ بھی یہ جان دار کی تصاویر پر مشتمل ہوتا ہے، نیز  مشاہدہ یہ ہے کہ  جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کے بہت سے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں؛  لہذا پب جی اور اس جیسے دیگر  گیم کھیلنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أقول: قدمنا عن القهستاني جواز اللعب بالصولجان، وهو الكرة للفروسية، وفي جواز المسابقة بالطير عندنا نظر، وكذا في جواز معرفة ما في اليد واللعب بالخاتم ؛ فإنه لهو مجرد. وأما المسابقة بالبقر والسفن والسباحة فظاهر كلامهم الجواز، ورمي البندق والحجر كالرمي بالسهم، وأما إشالة الحجر باليد وما بعده فالظاهر أنه إن قصد به التمرن والتقوي على الشجاعة لا بأس به.  قوله ( والبندق ) أي المتخذ من الطين ط ومثله المتخذ من الرصاص، قوله ( وإشالته باليد ) ليعلم الأقوى منهما ط. قوله ( والشباك ) أي المشابكة بالأصابع مع فتل كل يد صاحبه ليعلم الأقوى كذا ظهر لي. قوله ( ومعرفة ما بيده من زوج أو فرد واللعب بالخاتم) سمعت من بعض الشافعية أن جواز ذلك عندهم إذا كان مبنيا على قواعد حسابية مما ذكره علماء الحساب في طريق استخراج ذلك بخصوصه لا بمجرد الحزر والتخمين.

 أقول: والظاهر جواز ذلك حينئذ أيضًا إن قصد به التمرن على معرفة الحساب، وأما الشطرنج فإنه وإن أفاد علم الفروسية لكن حرمته عندنا بالحديث لكثرة غوائله بإكباب صاحبه عليه فلايفي نفعه بضرره كما نصوا عليه بخلاف ما ذكرنا ، تأمل."

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، فرع ثاني (6/ 404)،ط. سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144207200090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں