بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پب جی گیم میں پاور حاصل کرنے کے لیے بتوں کے سامنے جھکنا


سوال

پب جی گیم جو نوجوان نسل کو  تباہ کرنے والی گیم ہے، جس گیم میں مسلمان بھی شریک ہیں، اس گیم کے چار الگ الگ نقشے ہوتے ہیں، ایک تو پہلے ہی سے ڈاؤن لوڈ ہوتا ہے اور باقی تین کو ڈاؤن لوڈ کرنا پڑتا ہے، جس میں سے ایک کا نام سانہاک ہے،   اس نقشے میں کھیلنے والے (sanhok) کو پاور حاصل کرنے کے لیے اک بت کے سامنے پوجا کرنی پڑتی ہے جو ایک بت کی پوجا کرنے کے مانند ہے،  اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے ایک تصویر شائع کی گئی جس میں اس قسم کی حرکت کو شرک کہا گیا ہے، اب دریافت طلب امور یہ ہیں:

 یہ شرک کی کون سی تعریف کے تحت داخل ہے؟   گیم کو کھیلنے والا جو خارج میں موجود ہے اور وہ پلیر جو گیم میں موجود ہے، کیا ان دونوں کا وجود ایک سمجھا جائے گا یا الگ الگ؟  کیا محض گیم کی وجہ سے آدمیوں کو مشرک قرار دیا جائے گا جب کہ وہ توحید پرست ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں گیم کھیلنے والے شخص کا  گیم میں موجود  اپنے کھلاڑی کو پاور حاصل کرنے کے لیے بتوں کے سامنے جھکانا اس کا اپنا فعل ہے،  اور گیم میں نظر آنے والا  کھلاڑی اسی گیم کھیلنے والے کا عکاس اور ترجمان ہے، اور مسلمان کا توحید کا عقیدہ ہوتے ہوئے  بتوں کے سامنے جھکنا شرک فی الاعمال ہے، اور گیم میں یہ عمل کرنے سے  رفتہ رفتہ بتوں کے سامنے جھکنے  کی  قباحت بھی دل سے نکل جائے گی، لہذا یہ گیم کھیلنا ناجائز ہے، اور  پپ جی گیم میں بتوں کے سامنے جھک کر پاور حاصل کرنا شرک ہے، اور عمدًا اس کو کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا،ایسے شخص پر تجدیدِ ایمان  اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح بھی کرنا ضروری ہے۔

الفتاوى الهندية (2/ 276):

يكفر بوضع قلنسوة المجوس على رأسه على الصحيح إلا لضرورة دفع الحر والبرد، وبشدّ الزنار في وسطه إلا إذا فعل ذلك خديعةً في الحرب وطليعةً للمسلمين.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:4، ص:222، ط: دار الفكر-بيروت):

(قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار؛ لأن التصديق  وإن كان موجودًا حقيقةً لكنه زائل حكمًا؛ لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارةً على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفًا في قاذورة فإنه يكفر،  وإن كان مصدّقًا لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله: للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفاف واستهانة بالدين فهو أمارة عدم التصديق، ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقًا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة.  وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به؛ لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقّق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال: ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدًا، بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافًا  بها بسبب أنه فعلها النبي  صلى الله عليه وسلم  زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف؛ لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر؛ لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق.

الاختيار لتعليل المختار (ج:4، ص:150، ط: مطبعة الحلبي - القاهرة):

قال: (والكافر إذا صلى بجماعة أو أذن في مسجد، أو قال: أنا معتقد حقيقةً الصلاة في جماعة يكون مسلمًا)؛ لأنه أتى بما هو من خاصية الإسلام، كما أن الإتيان بخاصية الكفر يدل على الكفر، فإن من سجد لصنم أو تزيا بزنار أو لبس قلنسوة المجوس يحكم بكفره.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں