بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پب جی گیم کیوں حرام ہے ؟


سوال

پپ جی گیم کیوں  حرام ہے؟ تفیصل سے جواب چاہیے۔

جواب

صورت مسئولہ میں   پب جی (PUBG) گیم کئی طرح کے شرعی و دیگر مفاسد پر مشتمل ہے،مثلاً اس میں وقت کا ضیاع  ہے،  گیم کھیلنے میں منہمک ہوکر عبادات کا خیال ہی نہیں رہتا ، نیز اس کے کھیلنے میں نہ دینی اور نہ ہی جسمانی ورزش جیسا کوئی دنیوی فائدہ ہے  ،یہ جان دار کی تصاویر اور موسیقی وغیرہ پر بھی  مشتمل ہوتاہے، لہذا پب جی اور اس جیسے دیگر گیم کھیلنا جو اس طرح کے ممنوع وناجائز چیزوں پر مشتمل ہو ،جائز نہیں ہے، نیز  مشاہدہ یہ ہے کہ  جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کے بہت سے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں؛  لہذا پب جی اور اس جیسے دیگر  گیم کھیلنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

ہماری معلومات کے مطابق کچھ عرصہ قبل اس گیم کے بنانے والوں نے اس  گیم کے ایک Sanhok نامی نقشے  (map) میں ایک نیا موڈ متعارف کرایا جس کا نام  ‘‘Mysterious Jungle mode’’ـ تھا جس میں صحت اور  اسلحہ  حاصل کرنے کے لیے ایک آپشن بتوں کی عبادت  کرنا بھی تھا۔  یعنی جس طرح پاور حاصل کرنے کے لیے انرجی ڈرنک، میڈیکل کٹس وغیرہ گیم میں موجود ہیں، اسی طرح   'سانہاک' کے اس خاص موڈ میں   بتوں کی تعظیم بھی پاور حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے، البتہ یہ لازمی نہیں ہے، یعنی اگر کھلاڑی اس سے پاور حاصل نہ کرے تو  بھی وہ گیم  کھیل سکتا ہے اگرچہ یہ ممکن ہے کہ اس سے اس کی کارکردگی میں فرق آئے،البتہ اس اپ ڈیٹ  پر بہت سے مسلمانوں کی طرف سے اعتراض اور اس گیم کے بائیکاٹ کرنے کے نتیجے میں چند دنوں بعد ہی اس گیم سے ہٹا دیا گیا تھا۔اور ممکن ہے کسی زمانہ میں  اَپ ڈیٹ میں یہ  دوبارہ   شامل ہوجائے، اس لیے اب اس سارے تناظر میں مسئلہ کا حکم یہ ہے:

مطلقًا پب جی گیم کھیلنا  ناجائز ہے، لیکن اس کو کھیلنے والا دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، اور اگر کسی نے سانہاک نقشے کے جنگل موڈ میں کھیلا ہو لیکن بتوں سے پاور حاصل  نہیں کی ہو  تب بھی وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوا، البتہ اگر کسی نے عمدًا پاور حاصل کرنے کے  لیے پلئیر کو  بت کے سامنے جھکایا ہو  تو چوں کہ پلئیر درحقیقت  کھیلنے والے کا عکاس اور ترجمان  ہے، اور کھیلنے والا اس کو جس طرح  چلائے وہ اسی طرح چلتا ہے،  اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرسکتا، اور کوئی ایسی خاص ضرورت بھی نہیں ہے کہ پلئیر کو بت کے سامنے جھکایا جائے، اور شریعت نے بعض ایسی چیزیں  جو کفر کی علامات اور خصائص ہیں ان کے کرنے پر مطلقًا کفر کا حکم دیا ہے  اگر چہ ان کا قصد وارادہ نہ ہو، جیسے بتوں کے سامنے سجدہ کرنا، قرآن مجید کو گندگی میں پھینکنا وغیرہ۔ اس  لیے  اس خاص  صورت میں تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کا حکم دیا گیا ہے۔

نیز مذکورہ  نقشے میں بتوں کے سامنے جھکنے کا طریقہ ایک خاص  مذہب کے لوگوں کی پوجا کا  طریقہ ہے اور گیم میں پلئیر جب بت کے سامنے جاتا ہے تو اس وقت انگریزی زبان میں وہاں جو الفاظ نمودار ہوتے ہیں  اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے وہ اس پلئیر کو تعظیم کرنے کا حکم دے رہا ہے اور پاور  ملنے کے بعد جو الفاظ ظاہر ہوتے ہیں وہ بھی شرکیہ ہیں، اس لیے ہر مسلمان کو اس قسم کی چیزوں سے بالکلیہ اجتناب کرنا لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

 "و ظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها."

(کتاب الصلاۃ،مطلب؛مکروہات الصلاۃ،ج:۱،ص:۶۶۷،سعید)

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها."

(سورہ لقمان،ج:۱۱،ص:۶۶،دارالکتب العلمیۃ)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(وعن أنس - رضي الله عنه - قال: قال رجل: يا رسول الله! الرجل منا) أي: من المسلمين، أو من العرب (يلقى أخاه) أي: المسلم أو أحدا من قومه، فإنه يقال له أخو العرب (أو صديقه) أي: حبيبه وهو أخص مما قبله (أينحني له؟) : من الانحناء، وهو إمالة الرأس والظهر تواضعا وخدمة (قال: لا) أي: فإنه في معنى الركوع، وهو كالسجود من عبادة الله سبحانه."

(باب المصافحۃ والمعانقۃ،ج:۷،ص:۲۹۶۵،دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

  "ومن يرضى بكفر نفسه فقد كفر، ومن يرضى بكفر غيره فقد اختلف فيه المشايخ رحمهم الله تعالى في كتاب التخيير في كلمات الكفر إن رضي بكفر غيره ليعذب على الخلود لا يكفر، وإن رضي بكفره ليقول في الله ما لا يليق بصفاته يكفر، وعليه الفتوى كذا في التتارخانية."

(الباب التاسع فی احکام المرتدین ،ج:۲،ص:۲۵۷،دارالفکر)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے :

"قال: (والكافر إذا صلى بجماعة أو أذن في مسجد، أو قال: أنا معتقد حقيقة الصلاة في جماعة يكون مسلما) لأنه أتى بما هو من خاصية الإسلام، كما أن الإتيان بخاصية الكفر يدل على الكفر، فإن من سجد لصنم أو تزيا بزنار أو لبس قلنسوة المجوس يحكم بكفره."

(فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلما،ج:۴،ص:۱۵۰،دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں