بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پب جی گیم کا حکم تبدیل کرنے کی وجہ


سوال

میں پب جی  گیم دو تین سال  سے کھیلتاہوں، نہ کوئی میں نےپب جی میں گیم کے دوران بتوں کے سامنے جھکنے کاموڈ دیکھاہے اور نہ میں نے کھیلاہے،بس سمپل سا گیم کھیلتاہوں،آپ نے فتویٰ دیاتھا کافر ہونے کا پھر دوبارہ حرام کہہ دیا،لیکن اب بھی  زیادہ تر   مفتی صاحبان کہتے ہیں کہ پب جی کھیلنے  والا کافر ہوتاہے۔

جواب

 واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل پب جی (pubg) گیم  کی انتظامیہ نے گیم میں  ایک عمل اپڈیٹ کیا تھاجس میں گیم کھیلنے والے کو پاورحاصل  کرنے کے  لیے یاایک مخصوص راؤنڈ مکمل کرنے  کے بعد اگلے مرحلے میں جانے کے  لیے اپنے کھلاڑی کو بت کے سامنے جھکانا اور  پوجاکرانی پڑتی تھی،اور گیم کھیلنے والے شخص کا گیم میں موجود اپنے کھلاڑی کو پاور حاصل کرنے کے  لیے یا اگلے مرحلے میں جانے کے  لیے بتوں کے سامنے جھکانا اور بتوں کی پوجا کروانا اس کا اپنا فعل ہے، گیم میں نظر آنے والا کھلاڑی اسی گیم کھیلنے والے کا  ترجمان  ہوتاہے، اور مسلمان کا توحید کا عقیدہ ہوتے ہوئے بتوں کے سامنے جھکنا شرک فی الاعمال ہے ،جس کی وجہ سے جامعہ بنوری ٹاؤن  کے مفتیانِ  کرام  نےتحقیق کے بعد  اس گیم کے کھیلنے  والے پر کفر کافتویٰ  جاری کیاتھا،لیکن یہ شرکیہ عمل اس گیم میں  کچھ عرصہ کے لیے اپڈیٹ ہواتھااور مسلمانوں نےاس عمل کے خلاف احتجاج کیا تو پب جی گیم  کی انتظامیہ نے یہ شرکیہ عمل اس گیم سے ہٹادیا ،اب  یہ شرکیہ عمل  اس پب جی گیم  میں نہیں ہے۔

اس ساری تفصیل کے تناظر میں پب جی گیم کھیلنے سے متعلق حکم یہ ہے کہ   مذکورہ شرکیہ عمل ختم ہونے کے بعد موجودہ حالت میں پب جی گیم کا کھیلنا کفر نہیں ،بلکہ اپنے  قیمتی اوقات کو ضائع کرنے، جاندار کی تصاویر پر مشتمل ہونے  اور  اس کے علاوہ کئی سارے  مفاسد کی بنا پرناجائز اور حرام ہے، اس کاکھیلنے والاگناہ گار اور حرام کا ارتکاب کرنے والاہے۔

لیکن یہ  بات یاد  رہے کہ اگر آئندہ یہ شرکیہ عمل دوبارہ اس گیم میں یاکسی بھی گیم میں شامل کردیاگیا توجامعہ کافتویٰ پھر وہی ہوگا کہ  ایسے گیم کاکھیلنے والادائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لا ينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجودا حقيقة لكنه زائل حكما لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفا في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقا لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفاف واستهانة بالدين فهو أمارة عدم التصديق ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة، وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي - صلى الله عليه وسلم - زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ.

قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق."

(ج:4، ص:222، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں