بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پب جی گیم کھیلنا


سوال

 پب جی کھیلنا کیسا ہے؟  ابھی  2021 میں تو اس میں بتوں سے پاور حاصل نہیں کی جاتی،اور نہ اس میں اسلام کے خلاف کچھ نہیں ہے ، تو اس کا کھیلنا کیسا ہے؟

جواب

کسی بھی   کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کی وجہ سے شرعاً  ناجائز اور حرام ہوگا:

                                                 1۔۔   وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

                                                 2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت  ہو،  مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

                                                      3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

                                                       4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ  مسئولہ  میں :

پب جی (PUBG) گیم کئی طرح کے شرعی ودیگر مفاسد پر مشتمل ہے، اس کے کھیلنے میں نہ کوئی دینی اور نہ ہی کوئی دنیوی فائدہ ہے، مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ،  یہ محض لہو لعب اور وقت گزاری کے لیے کھیلا  جاتا ہے،  جو ’’لایعنی‘‘  کام ہے، اور اس کو کھیلنے والے عام طور پر اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اس کا نشہ سا ہوجاتا ہے، اور ایسا انہماک ہوتا ہے کہ وہ کئی دینی بلکہ دنیوی امور سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، شریعتِ مطہرہ ایسے لایعنی لہو لعب پر مشتمل کھیل کی اجازت نہیں دیتی، جب کہ اس میں مزید شرعی قباحت یہ بھی ہے کہ یہ جان دار کی تصاویر پر مشتمل  ہے، نیز مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ  وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کے  بہت سے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں؛ لہذا پپ جی اور اس جیسے دیگر گیم کھیلنا شرعًا جائز نہیں ہے۔

نیز مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

پب جی گیم کھیلنے کے حکم کے بارے میں راہ نمائی

فتاوی شامی میں ہے:

"أقول: قدمنا عن القهستاني جواز اللعب بالصولجان، وهو الكرة للفروسية، وفي جواز المسابقة بالطير عندنا نظر، وكذا في جواز معرفة ما في اليد واللعب بالخاتم ؛ فإنه لهو مجرد. وأما المسابقة بالبقر والسفن والسباحة فظاهر كلامهم الجواز، ورمي البندق والحجر كالرمي بالسهم، وأما إشالة الحجر باليد وما بعده فالظاهر أنه إن قصد به التمرن والتقوي على الشجاعة لا بأس به.  قوله ( والبندق ) أي المتخذ من الطين ط ومثله المتخذ من الرصاص، قوله ( وإشالته باليد ) ليعلم الأقوى منهما ط. قوله ( والشباك ) أي المشابكة بالأصابع مع فتل كل يد صاحبه ليعلم الأقوى كذا ظهر لي. قوله ( ومعرفة ما بيده من زوج أو فرد واللعب بالخاتم) سمعت من بعض الشافعية أن جواز ذلك عندهم إذا كان مبنيا على قواعد حسابية مما ذكره علماء الحساب في طريق استخراج ذلك بخصوصه لا بمجرد الحزر والتخمين.

 أقول: والظاهر جواز ذلك حينئذ أيضًا إن قصد به التمرن على معرفة الحساب، وأما الشطرنج فإنه وإن أفاد علم الفروسية لكن حرمته عندنا بالحديث لكثرة غوائله بإكباب صاحبه عليه فلايفي نفعه بضرره كما نصوا عليه بخلاف ما ذكرنا ، تأمل."

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، فرع ثاني (6/ 404)،ط. سعيد)

فقط،  والله اعلم


فتوی نمبر : 144207200101

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں