کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا اور میری بیوی کے درمیان کسی بات پر تنازعہ ہوا، میں نے اس کو دوران تنازعہ کہاکہ چپ ہو جاؤ ،اور تین دفعہ کہا، لیکن وہ چپ نہیں ہوئی ،پھر میں نے تین پتھر اٹھائے اور یہ کہا ایک ،دو ،تین اور کزن کو کہا کہ لے جاؤ ،دور کرو، والد یا بھائی کے گھر لے جاؤ ،اب اس بارے میں دریافت کرنا ہے کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر ہوئی ہے تو کتنی طلاق واقع ہو گئیں ہیں؟
واضح رہے کہ طلاق واقع کرنے کے لیے لفظ طلاق کا تلفظ ضروری ہے، خواہ وہ لفظ طلاق کے صریح ہو یا کنایہ، لہذا اگر کوئی شخص محض تین پتھر اٹھا کر یا پھینک کر ایک دو تین کہے اور طلاق کا لفظ نہ کہے ،تو ایسے شخص کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اسی طرح سائل کا اپنی کزن سے بھی بیوی کے متعلق یہ کہنا، لے جاؤ، دور کرو وغیرہ یہ الفاظ بھی طلاق کے ہونے میں نیت کے محتاج ہیں، اگر سائل کی نیت ان الفاظ سے طلاق دینے کی تھی، تو بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی ، ورنہ ان الفاظ سے بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
فتاوٰی ھندیہ میں ہے:
"ولو قال لامرأته: " دور باش از من " يقع إذا نوى ."
(کتاب الطلاق،الباب الثالث في تفويض الطلاق وفيه ثلاثة فصول،ج:1،ص:387،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101670
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن