بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں میں سرمایہ کاری کرنے کا حکم


سوال

 پاکستان  اسٹاک ایکسچینج(Pakistan stock exchange) میں انویسٹمنٹ کرنے کا حکم کیاہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں  درج ذیل  شرائط کی پاس داری کرتے ہوئےانوسٹمنٹ ( سرمایہ کاری) کرنا جائز ہے:

1-  حقیقی کمپنی کے شیئرز کی خریداری کی جائے، ورچوئل  کمپنی کے شیئرز کی خریداری نہ کی جائے۔

2-   حلال  سرمایہ  والی کمپنی کے شیئرز خریدے جائیں، بینک یا حرام کاروبار کرنے والے اداروں کے شیئرز کی خریداری نہ ہو۔

3-   کمپنی نے بینک سے سودی قرضہ نہ لیا ہو۔

4-  کمپنی  کا کاروبار حلال ہو۔

5-    اس کمپنی کے کل اثاثے نقد کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ اس کمپنی کی ملکیت میں جامد اثاثے بھی موجود ہوں۔

6-  کمپنی کا کل یا کم از کم اکثر سرمایہ حلال ہو۔

7-  شیئرز کی خرید و فروخت میں، خرید و فروخت کی تمام شرائط کی پابندی ہو۔

8-   کمپنی حاصل شدہ منافع کل کا کل شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کرتی ہو۔

9-  شیئرز  اور اس کی قیمت کی ادائیگی  دونوں ادھار نہ ہو۔

10-  شیئرز کی خرید و فروخت میں جوئے کی صورت نہ ہو۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾." [المائدة: 90]

ترجمہ:" اے ایمان والوں! شراب، اور جوا اور بت اور فال کے تیرسب شیطان کے گندے  کام ہیں،سو بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ۔"

(سورۃ المائدۃ، رقم الآیۃ:90، ترجمہ:بیان القرآن)

صحیح مسلم  میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»."

(صحیح مسلم، کتاب لمساقات، ج:3، ص:1219، ط:داراحیاءالتراث العرب)

ترجمہ: "حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، اور کھلانے والے اور (سودکاحساب) لکھنے والے اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے،اور فرمایا: کہ وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔"

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"أما شركة العنان فهي أن يشترك اثنان في نوع من التجارات بر أو طعام أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة خاصة، كذا في فتح القدير، وصورتها أن يشترك اثنان في نوع خاص من التجارات أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة والمفاوضة فيها فتضمنت معنى الوكالة دون الكفالة حتى تجوز هذه الشركة بين كل من كان من أهل التجارة، كذا في محيط السرخسي. فتجوز هذه الشركة بين الرجال والنساء والبالغ والصبي المأذون والحر والعبد المأذون في التجارة والمسلم والكافر، كذا في فتاوى قاضي خان".

(کتاب البیوع، الباب الثالث فی شركۃ العنان وفيہ ثلاثۃ فصول، الفصل الأول فی تفسير شركۃ العنان وشرائطہا وأحكامہا، ج:2، ص:319، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وبيع ما ليس في ملكه) فيه أنه يشمل بيع ملك الغير لوكالة أو بدونها مع أن الأول صحيح نافذ والثاني صحيح موقوف. وقد يجاب بأن المراد بيع ما سيملكه قبل ملكه له ثم رأيته كذلك في الفتح في أول فصل بيع الفضولي، وذكر أن سبب النهي في الحديث ذلك (قوله لبطلان بيع المعدوم) إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وأن يكون ملك البائع فيما ببيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم منح".

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:58، ط: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وزاد في البحر قيد أن يكون العمل حلالا لما في البزازية: لو اشتركا في عمل حرام لم يصح اه".

(کتاب الشرکۃ، فروع فی الشرکۃ، ج:4، ص:322، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101549

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں