بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرپال آن لائن کمپنی کا شرعی حکم


سوال

پرپال آن لائن کمپنی کے بارے میں شرعی معلومات درکار ہے؟

جواب

پرپال کمپنی ایک اشتہارات (ADVERTISING ) کی کمپنی ہے، اس میں کام کرنے کے لیے دو طرح کے پیکچز ہیں: 1-نیٹ ورک مارکیٹنگ  2 -انوسٹمنٹ پیکج۔

 کوئی شخص اس کمپنی میں رجسٹرد ہونے کے لیے پچاس ڈالر کے عوض ایک ایڈ پاور خریدتا ہے، جس کے نتیجہ میں اسے یومیہ کلک کی مقدار کا حق حاصل ہوجاتا ہے، جسے وہ پندرہ مہینہ کے دورانیہ میں استعمال کرسکتا ہے، اس کے بعد اس کا یہ حق ختم ہوجاتا ہے ، نیز اس کمپنی میں اپنے علاوہ دوسرے کو بھی شریک کیاجاسکتا ہے ،جس کا چین کمیشن بھی پہلے والوں کو ملتا رہتا ہے۔

اس کمپنی کے طریقہ کار  کی تفصیل کی روشنی میں  اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اس میں رجسٹرڈ ہونا اور دوسرے کو شریک کرنا ناجائز ہے، اور اس کی آمدنی بھی ناجائز ہے۔ اس کی چند شرعی خرابیاں درج ذیل ہیں:

1۔۔   اس میں ایسے لوگ اشتہارات کو دیکھتے ہیں جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

2۔ اس میں کلک کرنے والا ایک ہی شخص کئی بار کلک کرتا ہے ،  جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اشتہار دیکھنے والے بہت سے لوگ ہیں، جس سے اشتہار دینے والوں کی ریٹنگ بڑھتی ہے، حالاں کہ یہ بات بھی خلاف واقعہ اور دھوکا دہی ہے۔

3۔۔ نیز ایڈ پر کلک ایسی چیز نہیں ہے جس منفعت مقصودہ ہے، اس لیے یہ اجارہ صحیح نہیں ہے۔

4۔۔ اس کمپنی میں رجسٹرڈ  ہونے کے لیے پچاس ڈالر کے عوض ایڈ پاور حاصل کیا جاتا ہے، جو واپس نہیں ملتے، یہ ایک قسم کی رشوت ہے۔

5۔۔ اگر ان اشتہارات میں جان دار کی تصاویر یا خواتین کے تصاویر بھی ہوں تو یہ اس پر مستزاد قباحت ہے۔

6۔۔ اس اجارہ کے معاملہ میں عمل  (کلک کی مجموعی تعداد) اور وقت (کلک کرنے کی مدت ) دونوں پر اجارہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد ہے۔

7۔۔ اس معاملے میں جس طریق پر اس سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے، جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کوہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے، جب کہ  اس نے  اس نئےاکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے ۔

8۔۔ انویسمنٹ کے طریقہ کار میں  مزید یہ خرابی بھی ہے کہ  یہ انویسمنٹ پلان میں یومیہ متعین نفع دیتی ہے، مثلاً انوسٹمنٹ $50= روزانہ کی آمدنی تقریباً $0.25، انوسٹمنٹ $100 = روزانہ کی آمدنی 0.50 $ ہے، انوسٹمنٹ $200 = یومیہ آمدنی $1، انوسٹمنٹ $400= یومیہ آمدنی $2،  انوسٹمنٹ $500= روزانہ آمدنی $2.5، انوسٹمنٹ $1000= یومیہ آمدنی $5۔ ، جب کہ شرعاً اس طرح کی انویسمنٹ ناجائز ہے۔

خلاصہ یہ مذکورہ کمپنی سے معاملہ کرنا، اس میں رجسٹرڈ ہونا یا کسی اور رجسٹرد کرانا  ناجائز اور حرام ہے۔اس کے بجائے کسی حلال روزگار کی کوشش کرنی چاہیے۔

شعب الإيمان (2/ 434):

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 4) :

هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية۔

وفیه ایضا (6/ 58) :

(أو) استأجر (خبازا ليخبز له كذا) كقفيز دقيق (اليوم بدرهم) فسدت عند الإمام لجمعه بين العمل والوقت ولا ترجيح لأحدهما فيفضي للمنازعة (قوله فيفضي للمنازعة) فيقول المؤجر المعقود عليه: العمل والوقت ذكر للتعجيل ويقول المستأجر: بل هو الوقت والعمل للبيان. 

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 290):

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة . ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200239

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں