میں ایک ڈاکٹر ہوں اور ایک علاج کے جواز اور عدم جواز کے متعلق معلوم کرنا چاہتی ہوں۔ آج کل ایک علاج PRP Micro needlingکے نام سے معروف و مشہور ہے۔یہ علاج چہرہ پر موجودنشانات (acneاورscars) کو ختم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اسی طرح بڑھاپے میں جو چہرے پر جھریاں اور دیگر نشانات پیدا ہوجاتے ہیں ان کو ختم کرنے کے لیے بھی یہ علاج استعمال ہوتا ہے۔
اس علاج میں چہرے کے نشانات (acneاورscars) کی جگہ پر بہت باریک اور چھوٹی سوئیوں سے ایک آلہ کے ذریعہ سوراخ کیے جاتے ہیں اور پھر اسی مریض کے خون کشید کرکے اس خون کے سیرم (serum)کو اس جگہ ملا یا جاتا یا انجیکٹ کیا جاتا ہے۔ خون سے سیرم(serum) اس طرح حاصل کیا جاتا ہے کہ خون کو ایک مشین (centrifuge) میں تیزی سے گھمایا جاتا ہے، اس گھمانے کے نتیجہ میں خون میں موجود سفید پانی (سیرم) اوپر کی طرف آجاتا ہے اور باقی خون کے اجزاء نیچے جمع ہوجاتے ہیں۔ اوپر سے سیرم حاصل کر کے چہرے کے نشانات والی جگہ پر ملایا یا انجیکٹ کیا جاتا ہے۔ اس سیرم میں پلیٹلیٹس(platelets) ہوتے ہیں۔اس سیرم ملنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ علاج کی غرض سے جو سوئی کے ذریعہ چھوٹے چھوٹے زخم لگائے گئے تھے وہ جلدی بھر جائیں۔ جب یہ زخم بھر جاتے ہیں تو چھرے کے نشانات ختم ہوجاتے ہیں۔
کیا اس طرح علاج کرنا درست ہے اور جائز ہے؟
وضاحت: یہ خون کے ذریعہ حاصل شدہ پلیٹلٹس زخم کے بھرنے کو تیز کر دیتے ہیں اور وہ اس طرح کہ زخم بھرنے کے لیےہمارا جسم بھی قدرتی طور پر یہ ہی پلیٹلٹس پیدا کرتا ہے جب ہم باہر سے بھی پلیٹلٹس فراہم کرتے ہیں تو علاج جلدی ہوجاتا ہے۔
جواب سے قبل تمہید کے طور پر کچھ جیزیں بیان کی جاتی ہیں:
لہذا مذکورہ علاج میں چہرہ کے نشانات کو دور کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی سوئیوں سے سوراخ کرنا جائز ہے؛ کیوں کہ یہ حجامہ کے مشابہ ہے اور حجامہ بالاتفاق جائز ہے، البتہ اس زخم کو جلدی بھرنے کے لیے انسانی خون سے حاصل شدہ سیرم کا استعمال شرعًا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ زخم زینت اور خوبصورتی کے لیے کیے گئے ہیں اور اس خون سے حاصل شدہ سیرم کے استعمال کے ذریعہ اس خوبصورتی کا حصول جلدی ہوجائے گا لہذا اس صورت میں خون کے خارجی استعمال کی اجازت نہیں ہوگی۔ جیسا کےسوال اور فراہم کردہ معلومات سے ظاہر ہے کہ اگر خارج سے یہ سیرم نہ انجیکٹ کیا جائے تب بھی جسم اپنے اندر پلیٹلیٹس رچ پلاسما (platelets rich plasma) خود بناتا ہے اور زخم کو بھر دیتا ہے گو کہ اس میں کچھ وقت زیادہ لگتا ہے لہذا صرف زخم کو جلدی بھرنے کے لیے خون کے استعمال کی اجازت نہیں ہوگی۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ اگر مذکورہ علاج بڑھاپا چھپانے اور جوان ظاہر ہونے کے لیے کیا جائے تو پھر یہ علاج مکروہ ہوگا کیونکہ شریعت میں بڑھاپے کو چھپانا پسندیدہ نہیں ہے اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے سفید بالوں کو نوچنے سے منع کیا اور فقہاء نے بھی اس کو مکروہ لکھا ہے، اسی طرح کالے رنگ سے بال رنگنے کو بھی شریعت نے ممنوع قرار دیا ، کالے کے علاوہ سرخ رنگ کی اجازت ہے کیونکہ سرخ رنگ بڑھاپے کےآثار کو بالکل ختم نہیں کرتا لہذا مذکورہ علاج اس غرض سے کروانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
فتاوى عالمگيری میں ہے:
"وقال محمد - رحمه الله تعالى - ولا بأس بالتداوي بالعظم إذا كان عظم شاة أو بقرة أو بعير أو فرس أو غيره من الدواب إلا عظم الخنزير والآدمي فإنه يكره التداوي بهما......الانتفاع بأجزاء الآدمي لم يجز قيل للنجاسة وقيل للكرامة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي......وإذا كان برجل جراحة يكره المعالجة بعظم الخنزير والإنسان لأنه يحرم الانتفاع به كذا في الكبرى.......ولا بأس بأن يسعط الرجل بلبن المرأة ويشربه للدواء وفي شرب لبن المرأة للبالغ من غير ضرورة اختلاف المتأخرين كذا في القنية."
(کتاب الکراہیۃ ،باب التداوی و المعالجات ج نمبر ۵ ص نمبر ۳۵۴-۳۵۵،دار الفکر)
فتاوی شا می میں ہے:
"«وفي المجمع: ونجيز بيع الدهن المتنجس والانتفاع به في غير الأكل بخلاف الودك
قوله في غير الأكل) كالاستصباح والدباغة وغيرهما ابن ملك، وقيدوا الاستصباح بغير المسجد (قوله بخلاف الودك) أي دهن الميتة؛ لأنه جزؤها فلا يكون مالا ابن ملك: أي فلا يجوز بيعه اتفاقا، وكذا الانتفاع به لحديث البخاري «إن الله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام، قيل: يا رسول الله أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس؟ قال: لا، هو حرام» الحديث."
(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد ج نمبر ۵ ص نمبر ۷۳،ایچ ایم سعید)
المحيط البرهاني میں ہے:
"وقال أبو حنيفة رحمه الله: كل شيء أفسده الحرام والغالب عليه الحلال، فلا بأس بأن يبيعه وتبين ذلك، ولا بأس بالانتفاع به كالفأرة تقع في السمن والعجين، وما كان الغالب عليه الحرام لم يجز بيعه ولا هبته.وكذلك الزيت إذا وقع فيه ودك الميت، فإن كان الزيت غالباً جاز بيعه، وإن كان الودك غالباً لم يجز، والمراد من الانتفاع حال عليه الحلال الانتفاع في غير الأبدان، وأما في الأبدان فلا يجوز الانتفاع به."
(کتاب البیع فصل سادس ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۵۰،دار الکتب العلمیۃ)
امداد الفتاوی میں ہے:
"اگر امتزاج ایں چنیں اشیاء مشکوک ست اعتبارے ندارد لقولہ تعالیٰ:ولا تقف مالیس لک بہ علم۔ الآیۃ وقال رسول اللّٰہ ﷺ: إذا کان أحدکم في الصلوٰۃ فوجد حرکۃ في دبرہ أحدث أولم یحدث فأشکل علیہ، فلا ینصرف حتی یسمع صوتا أو یجد ریحًا۔ رواہ أبوداؤد وقال الفقہاء: إن الیقین لا یزول بالشک والأصل الحل والطھارۃ۔
واگر مظنون یا متیقن ست پس خالی ازدوحال نیست یا اشیاء محرمہ نجس اندچوں خمروبول وغیر ہما، یا طاہر چوں عروسک وخراطین ونحو ہماواستعمال ہریکے دونوع ست داخلی چوں اکل وشرب وخارجی چوں طلاء وضماد، پس استعمال اشیاء محرمہ طاہرہ اگر خارجًا باشد بالاجماع مطلقًا جائز ست
لقولہ تعالیٰ: فتیمموا صعیدًا طیبًا۔الآیۃ(۴)۔کاباح التلطخ بالتراب الطاھر المحرم۔ واگر استعمال ہمیں اشیاء محرمہ طاہرہ داخلاً باشد یا استعمال اشیاء محرمہ نجسہ داخلاً یا خارجًا باشد، پس در حالت اکراہ واضطرار اتفاقاً مباح است۔"
(کتاب الحظر و الاباحۃ ،احکام متعلقہ علاج و دوا، ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۱۱،مکتبہ دار العلوم کراچی)
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"قال ميرك: نتف الشيب يكره عند أكثر العلماء، لحديث عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده مرفوعا " «لا تنتفوا الشيب» ; فإنه نور المسلم " رواه الأربعة. وقال الترمذي: حسن. وروى مسلم من طريق قتادة عن أنس قال: كان يكره نتف الرجل الشعرة البيضاء من رأسه ولحيته. قال بعض العلماء: لا يكره نتف الشيب إلا على وجه التزين. وقال ابن العربي: وإنما نهى عن النتف دون الخضب ; لأن فيه تغيير الخلقة من أصلها بخلاف الخضب، فإنه لا يغير الخلقة على الناظر إليه، والله الموفق."
(کتاب اللباس ، باب الترجل ج نمبر ۷ ص نمبر ۲۸۳۰،دار الفکر)
عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:
"«الأول: فِي تَغْيِير الشيب، وَاخْتلفُوا فِيهِ، فروى شُعْبَة عَن الركين بن الرّبيع قَالَ: سَمِعت الْقَاسِم بن مُحَمَّد يحدث عَن عبد الرَّحْمَن بن حَرْمَلَة عَن ابْن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ، أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، كَانَ يكره تَغْيِير الشيب، وروى الطَّبَرَانِيّ من حَدِيث عَمْرو بن شُعَيْب عَن أَبِيه عَن جده أَنه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ: من شَاب شيبَة فِي الْإِسْلَام كَانَت لَهُ نورا يَوْم الْقِيَامَة إلَاّ أَن ينتفها أَو يخضبها، وَعَن ابْن مَسْعُود: أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كَانَ يكره خِصَالًا، فَذكر مِنْهَا: تَغْيِير الشيب، وَقد غير جمَاعَة من الصَّحَابَة وَالتَّابِعِينَ الشيب........ وَالصَّوَاب عندنَا أَن الْآثَار الَّتِي رويت عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، بتغييره وَالنَّهْي عَنهُ صِحَاح، وَلَكِن بَعْضهَا عَام وَبَعضهَا خَاص، فَقَوله: خالفوا الْيَهُود وغيروا الشيب، المُرَاد مِنْهُ الْخُصُوص أَي: غيروا الشيب الَّذِي هُوَ نَظِير شيبَة أبي قُحَافَة، وَأما من كَانَ أشمط فَهُوَ الَّذِي أمره رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، أَن لَا يُغَيِّرهُ. وَقَالَ من شَاب شيبَة … الحَدِيث، لِأَنَّهُ لَا يجوز أَن يكون من رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، قَول متضاد وَلَا نسخ فَتعين الْجمع، فَمن غَيره من الصَّحَابَة فَمَحْمُول على الأول، وَمن لم يُغَيِّرهُ فعلى الثَّانِي، مَعَ أَن تَغْيِيره ندب لَا فرض، أَو كَانَ النَّهْي نهي كَرَاهَة لَا تَحْرِيم لإِجْمَاع سلف الْأمة وَخَلفهَا على ذَلِك، وَكَذَلِكَ الْأَمر فِيمَا أَمر بِهِ على وَجه النّدب، والطَّحَاوِي، رَحمَه الله مَال إِلَى النّسخ بِحَدِيث الْبَاب، وَقَالَ ابْن الْعَرَبِيّ: وَإِنَّمَا نهى عَن النتف دون الخضب لِأَن فِيهِ تَغْيِير الْخلقَة من أَصْلهَا، بِخِلَاف الخضب فَإِنَّهُ لَا يُغير الْخلقَة على النَّاظر."
(کتاب اللباس باب الخضاب ج نمبر ۲۲ ص نمبر ۵۰،دار احیاء التراث)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"نتف الشيب مكروه للتزيين لا لترهيب العدو كذا نقل عن الإمام كذا في جواهر الأخلاطي."
(کتاب الکراہیۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۳۵۹،دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا بأس بنتف الشيب
(قوله ولا بأس بنتف الشيب) قيده في البزازية بأن لا يكون على وجه التزين."
(کتاب الحظر و الاباحۃ ج نمبر ۶ ص نمبر ۴۰۷،ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100853
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن