میں ڈاکٹر اور جلد کی اسپیشلسٹ ہوں اور ڈیموٹولوجسٹ ہوں۔ ایک طریقہ علاج ہے جس کا نام PRPہے۔اس میں مریض کا اپنا خون دس سے بیس ملی لیٹر لیتے ہیں اور اس میں سےمائع حصہ جس کو پلازما کہتے ہیں ایک مشین میں ڈال کر علیحدہ کرتے ہیں۔ اس مائع حصہ میں پلیٹلیٹس (platelets) زیادہ ہوتے ہیں اس کو مختلف چیزوں کے علاج میں استعمال کرتے ہیں ۔
گنج پن یا بالوں کے گرنے پر یہ PRP سر کی اوپر کی جلد کی اوپر کی تہہ میں انسولین سوئی (insuline needle) کے ذریعہ لگاتے ہیں جو تقریبا 4 سے 5 ملی لیٹر اندر جاتی ہے۔ اس سے بالوں کی پیدائش بڑھتی ہے۔یہ مہینے میں ایک دفعہ کرتے ہیں۔
ایک دوسرا طریقہ استعمال یہ ہے کہ چہروں کے داغوں اور گڑہوں کے علاج کے لیے PRP استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک چھوٹی مشین جس میں باریک سوئی ہوتی ہے اس کے ذریعہ چہرہ پر چھید کرتے ہیں ، یہ سوئی ایک سے دو ملی میٹر جلد کے اندر جاتی ہے اور پھر اس چھید میں PRP پھیلا دیتے ہیں۔اس کو PRP with microneedling کہتے ہیں یعنی سوئی کے ذریعہ پلیٹس رچ پلازما کا استعمال۔
کیا یہ طریقہ علاج جائز ہے؟ بنوری ٹاؤن والے جسم سے نکلے ہوئے خون کو نجس کہتے ہیں؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب سے قبل تمہید کے طور پر کچھ جیزیں بیان کی جاتی ہیں:
۱) خون انسان کا جزء ہے ۔ انسان سے نکلنے کے بعد یہ نجس ہوتا ہے اور اس کا استعمال تکریم انسانی کے بھی خلاف ہے لہذا عام حالات میں خون کا داخلی یا خارجی استعمال شرعًا ناجائز ہے۔(ماخوذ از جواہر الفقہ ، اعضاء انسانی کی پیونکاری)
۲) اضطرار اور حاجت کی صورت میں انسانی خون کا استعمال جائز ہے ۔ اس جواز کی وجہ یہ ہے کہ خون ماں کے دودھ کی طرح انسانی جسم سے بغیر کانٹ چھانٹ کے نکل آتا ہے لہذاجس طرح شریعت نے ضرورت کی وجہ سے بچہ کے لیے ماں کے دودھ کو حلال کیا ہے گو کہ فی نفسہ انسانی تکریم کے خلاف ہے اسی طرح ضرورت کی وجہ خون کے استعمال کو دودھ پر قیاس کر کے جائز کہا جاسکتا ہے۔(ماخوذ از جواہر الفقہ ، اعضاء انسانی کی پیونکاری)
۳) اضطرار اس حالت کو کہا جاتا ہے جب خون کے استعمال کے بغیر مریض کی موت یا اعضاء کا ضائع ہونا یقینی ہو ۔ اور حاجت کا مقام یہ ہے کہ موت کا یا اعضاء کا ضائع ہونا تو یقینی نہ ہو، لیکن شدید حرج لازم آتا ہو۔(ماخوذ از جواہر الفقہ ، اعضاء انسانی کی پیونکاری)
۴) منفعت یا زینت کے مقام پر یعنی اس صورت میں جہاں نہ موت کا اندیشہ ہو اور نہ شدید حرج کا اندیشہ بلکہ محض قوت اور حسن کے حصول کے لیے خون کا استعمال کیا جارہا تو اس کی شرعًا اجازت نہیں ہوگی اور خون کا داخلی اور خارجی دونوں استعمال ناجائز ہوں گے۔(ماخوذ از جواہر الفقہ ، اعضاء انسانی کی پیونکاری)
۵) انسانی خون کا جو حکم ہے وہ ہی خون سے حاصل ہونے والے سیرم ( پلیٹیلٹس) کا ہے؛ کیوں کہ یہ اسی کا جزء ہے؛ لہذا اسی کی طرح نجس ہوگا۔
لہذا صورت مسئولہ میں چہرہ کے داغ یا گڑہوں کو دور کرنے اور گنچ پن یا بالوں کی پیدائش کو بڑھانے کے لیے اس خون سے حاصل شدہ مادہ (PRP) کا چہرہ اور سر کی جلد پر استعمال شرعا جائز نہیں ہوگا کیونکہ مذکورہ علاج میں خون سے حاصل شدہ نجس مادہ زینت اور خوبصورتی کو بڑھانے یا اس کے حصول کے لیے استعمال ہورہا ہے۔
نیز مذکورہ علاج اگر چہرہ کے داغ اور گرہوں کو زائل کر کے بڑھاپے کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جائے تو پھر یہ اس علاج کے ناجائز ہونے کی مزید ایک اور وجہ بن جائے گی اور اس عمل کی کراہت کو مزید بڑھادے گی کیونکہ شریعت میں بڑھاپے کو چھپانا پسندیدہ نہیں ہے، اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کے سفید بالوں کو نوچنے سے منع کیا اور فقہاء نے بھی اس کو مکروہ لکھا ہے، اسی طرح کالے رنگ سے بال رنگنے کو بھی شریعت نے ممنوع قرار دیا ، کالے کے علاوہ سرخ رنگ کی اجازت ہے کیونکہ سرخ رنگ بڑھاپے کےآثار کو بالکل ختم نہیں کرتا لہذا مذکورہ علاج اس غرض سے کروانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
فتاوى عالمگيری میں ہے:
"وقال محمد - رحمه الله تعالى - ولا بأس بالتداوي بالعظم إذا كان عظم شاة أو بقرة أو بعير أو فرس أو غيره من الدواب إلا عظم الخنزير والآدمي فإنه يكره التداوي بهما......الانتفاع بأجزاء الآدمي لم يجز قيل للنجاسة وقيل للكرامة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي...... وإذا كان برجل جراحة يكره المعالجة بعظم الخنزير والإنسان لأنه يحرم الانتفاع به كذا في الكبرى.......ولا بأس بأن يسعط الرجل بلبن المرأة ويشربه للدواء وفي شرب لبن المرأة للبالغ من غير ضرورة اختلاف المتأخرين كذا في القنية."
(کتاب الکراہیۃ ،باب التداوی و المعالجات ج نمبر ۵ ص نمبر ۳۵۴-۳۵۵،دار الفکر)
فتاوی شا می میں ہے:
"«وفي المجمع: ونجيز بيع الدهن المتنجس والانتفاع به في غير الأكل بخلاف الودك
قوله في غير الأكل) كالاستصباح والدباغة وغيرهما ابن ملك، وقيدوا الاستصباح بغير المسجد (قوله بخلاف الودك) أي دهن الميتة؛ لأنه جزؤها فلا يكون مالا ابن ملك: أي فلا يجوز بيعه اتفاقا، وكذا الانتفاع به لحديث البخاري «إن الله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام، قيل: يا رسول الله أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس؟ قال: لا، هو حرام» الحديث."
(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد ج نمبر ۵ ص نمبر ۷۳،ایچ ایم سعید)
المحيط البرهاني میں ہے:
"وقال أبو حنيفة رحمه الله: كل شيء أفسده الحرام والغالب عليه الحلال، فلا بأس بأن يبيعه وتبين ذلك، ولا بأس بالانتفاع به كالفأرة تقع في السمن والعجين، وما كان الغالب عليه الحرام لم يجز بيعه ولا هبته.وكذلك الزيت إذا وقع فيه ودك الميت، فإن كان الزيت غالباً جاز بيعه، وإن كان الودك غالباً لم يجز، والمراد من الانتفاع حال عليه الحلال الانتفاع في غير الأبدان، وأما في الأبدان فلا يجوز الانتفاع به."
(کتاب البیع فصل سادس ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۵۰،دار الکتب العلمیۃ)
امداد الفتاوی میں ہے:
"اگر امتزاج ایں چنیں اشیاء مشکوک ست اعتبارے ندارد لقولہ تعالیٰ: ولا تقف مالیس لک بہ علم۔ الآیۃ وقال رسول اللّٰہ ﷺ: إذا کان أحدکم في الصلوٰۃ فوجد حرکۃ في دبرہ أحدث أولم یحدث فأشکل علیہ، فلا ینصرف حتی یسمع صوتا أو یجد ریحًا۔ رواہ أبوداؤد وقال الفقہاء: إن الیقین لا یزول بالشک والأصل الحل والطھارۃ ۔
واگر مظنون یا متیقن ست پس خالی ازدوحال نیست یا اشیاء محرمہ نجس اندچوں خمروبول وغیر ہما، یا طاہر چوں عروسک وخراطین ونحو ہماواستعمال ہریکے دونوع ست داخلی چوں اکل وشرب وخارجی چوں طلاء وضماد، پس استعمال اشیاء محرمہ طاہرہ اگر خارجًا باشد بالاجماع مطلقًا جائز ست ،
لقولہ تعالیٰ: فتیمموا صعیدًا طیبًا۔ الآیۃ (۴)۔ کاباح التلطخ بالتراب الطاھر المحرم۔ واگر استعمال ہمیں اشیاء محرمہ طاہرہ داخلاً باشد یا استعمال اشیاء محرمہ نجسہ داخلاً یا خارجًا باشد، پس در حالت اکراہ واضطرار اتفاقاً مباح است۔"
(کتاب الحظر و الاباحۃ ،احکام متعلقہ علاج و دوا، ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۱۱،مکتبہ دار العلوم کراچی)
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"قال ميرك: نتف الشيب يكره عند أكثر العلماء، لحديث عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده مرفوعا " «لا تنتفوا الشيب» ; فإنه نور المسلم " رواه الأربعة. وقال الترمذي: حسن. وروى مسلم من طريق قتادة عن أنس قال: كان يكره نتف الرجل الشعرة البيضاء من رأسه ولحيته. قال بعض العلماء: لا يكره نتف الشيب إلا على وجه التزين. وقال ابن العربي: وإنما نهى عن النتف دون الخضب ; لأن فيه تغيير الخلقة من أصلها بخلاف الخضب، فإنه لا يغير الخلقة على الناظر إليه، والله الموفق."
(کتاب اللباس ، باب الترجل ج نمبر ۷ ص نمبر ۲۸۳۰،دار الفکر)
عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:
"الأول: في تغيير الشيب، واختلفوا فيه، فروى شعبة عن الركين بن الربيع قال: سمعت القاسم بن محمد يحدث عن عبد الرحمن بن حرملة عن ابن مسعود رضي الله عنه، أنه صلى الله عليه وسلم، كان يكره تغيير الشيب، وروى الطبراني من حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أنه صلى الله عليه وسلم قال: من شاب شيبة في الإسلام كانت له نورا يوم القيامة إلا أن ينتفها أو يخضبها، وعن ابن مسعود: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يكره خصالا، فذكر منها: تغيير الشيب،......والصواب عندنا أن الآثار التي رويت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، بتغييره والنهي عنه صحاح، ولكن بعضها عام وبعضها خاص، فقوله: خالفوا اليهود وغيروا الشيب، المراد منه الخصوص أي: غيروا الشيب الذي هو نظير شيبة أبي قحافة، وأما من كان أشمط فهو الذي أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم، أن لا يغيره. وقال: من شاب شيبة … الحديث، لأنه لا يجوز أن يكون من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قول متضاد ولا نسخ فتعين الجمع، فمن غيره من الصحابة فمحمول على الأول، ومن لم يغيره فعلى الثاني، مع أن تغييره ندب لا فرض، أو كان النهي نهي كراهة لا تحريم لإجماع سلف الأمة وخلفها على ذلك، وكذلك الأمر فيما أمر به على وجه الندب، والطحاوي، رحمه الله مال إلى النسخ بحديث الباب، وقال ابن العربي: وإنما نهى عن النتف دون الخضب لأن فيه تغيير الخلقة من أصلها، بخلاف الخضب فإنه لا يغير الخلقة على الناظر."
(کتاب اللباس باب الخضاب ج نمبر ۲۲ ص نمبر ۵۰،دار احیاء التراث)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"نتف الشيب مكروه للتزيين لا لترهيب العدو كذا نقل عن الإمام كذا في جواهر الأخلاطي."
(کتاب الکراہیۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۳۵۹،دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا بأس بنتف الشيب
(قوله ولا بأس بنتف الشيب) قيده في البزازية بأن لا يكون على وجه التزين."
(کتاب الحظر و الاباحۃ ج نمبر ۶ ص نمبر ۴۰۷،ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101799
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن