بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پراویڈنٹ فنڈ،گریجویٹی فنڈ اور انشورنس میں میراث کا حکم


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوگیاہے،ان کے ترکہ میں پراویڈنٹ فنڈ،گریجویٹی فنڈاور انشورنس کی رقم ہے ان میں سے کون سے ورثاء میں تقسیم ہوں گے،مرحوم کے ورثاء میں بیوہ،ایک بیٹی اور نو چچازاد بھائی ہیں،والدین کا انتقال پہلے ہوچکا تھا  ،مذکورہ ترکہ کی رقم میں ہروارث کا شرعی اعتبار سے  کتنا حصہ بنے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں پراویڈنٹ فنڈ اور انشورنس کی مرحوم یا کمپنی کی طرف سے جمع کردہ اصل  رقم  تو مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوکر تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی ،اور گریجویٹی فنڈ   کی رقم ادارہ کی طرف سے عطیہ ہوتی ہے،اس  رقم کا حق دار وہی ہوتا ہےجس کے نام پر یہ رقم جاری ہو ،یہ رقم ترکہ میں داخل نہیں ہے،اسی طرح انشورنس کے نام پر جو رقم جمع کردہ رقم سے اضافی ملے گی ،وہ ورثاء کے لیے جائز نہیں ہوگی  اسے بغیر ثواب کے نیت کے کسی غریب پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔

باقی مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہےکہ  سب سے پہلے مرحو م کے ترکہ میں سے ان کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کےاخراجات نکالنے کےبعد اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد،اگر انہوں  نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی حصے میں اسے نافذ کرنے کے بعدما بقیہ  تمام جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے کل  24  حصے کرکے مرحوم کی بیوہ کو 3 حصے،بیٹی کو 12 حصےاور ہر  چچازاد  بھائی کو ایک ایک حصہ دیا جائےگا۔ صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت 24/8

بیوہبیٹیچچازاد  چچازادچچازادچچازادچچازادچچازادچچازادچچازادچچازاد
143
312111111111

یعنی سو روپے میں سے مرحوم کی  بیوہ کو12.50 روپے،بیٹی کو50 روپےاور ہر چچازاد بھائی کو4.166  روپے ملیں گے۔

شرح المجلۃ میں ہے:

"المادة (2 9 0 1) - (كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين وارثيه على حسب حصصهم كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين وارثيه على حسب حصصهم)."

(الکتاب العاشر الشرکات، الباب الأول في بیان شركة الملك ج:3،ص:55،ط: دارالجیل)

وفیہ ایضاً:

"فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي"

(المادۃ، 58،ج:1،ص:57،ط:دارالجیل)

موسوعۃ القواعد الفقہیۃ   میں ہے:

"ما حصل بسبب خبيث فالسّبيل ردّه ...؛ لأنّ سبيل الكسب الخبيث التّصدّق إذا تعذّر الردّ على صاحبه، ويتصدّق بلا نيَّة الثّواب له، وإنّما ينوى به براءة الذّمّة."

(‌‌القاعدة الثالثۃ والسّبعون ج9 ص 124 ط:بیروت لبنان)

امداد الفتاویٰ میں ہے :

"   چوں کہ میراث اموال مملوکہ میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسان سرکار کا ہے  بدون قبضہ مملوک نہیں ہوتا ،لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں  میراث جاری نہیں ہوگی ،سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے  تقسیم کردے۔"

(کتاب الفرائض  ج 4 ص 342 ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100999

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں