رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یا حضورکہنا کیسا ہے؟ دلیل کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں!
واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات کا اداب و احترام ہر مسلمان پر واجب ہے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے وقت بھی ادب کا ملحوظ ہونا ضروری ہے، اور اردو زبان میں ’’حضرت‘‘ یا ’’حضور‘‘ کے الفاظ تعظیم اور ادب کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اس لیے اردو زبان میں ادب و احترام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یا نام کے شروع میں ’’حضور‘‘ یا ’’حضرت‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، اردو زبان میں اس کا معنی حاضر و ناظر ہونے کے لیے استعمال نہیں ہوتا، ورنہ "حضرت" عربی زبان میں مؤنث کا صیغہ ہے اور مذکر کے لیے مؤنث کا صیغہ استعمال کرنا درست نہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
"لَّا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ ٱلرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ." [سورة النور:63)
ترجمہ: ’’تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے کو ایسا (معمولی بلانا) مت سمجھو جیسا تم میں سے ایک دوسرے کو بلا لیتا ہے۔‘‘ (از بیان اقرآن)
وفيه أيضاً:
"إِنَّآ أَرْسَلْنَـٰكَ شَـٰهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (٨) لِّتُؤْمِنُوْا بِٱللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (٩)." (سورة الفتح:8 - 9)
ترجمہ: ’’ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا کرکے بھیجا ہے۔ تاکہ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس (کے دین) کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور صبح شام اس کی تسبیح میں لگے رہو۔‘‘ (از بیان القرآن)
تفسیر قرطبی میں ہے:
"(وتعزروه) أي تعظموه وتفخموه، قاله الحسن والكلبي. والتعزير: التعظيم والتوقير. وقال قتادة: تنصروه وتمنعوا منه. ومنه التعزير في الحد. لأنه مانع... (وتوقروه) أي تسودوه، قاله السدي. وقيل تعظموه. والتوقير: التعظيم والترزين أيضا. والهاء فيهما للنبي صلى الله عليه وسلم. وهنا وقف تام، ثم تبتدئ (وتسبحوه) أي تسبحوا الله (بكرة وأصيلا) أي عشيا."
(تفسير سورة الفتح، ج: 16، ص: 267، ط: دار الكتب المصرية)
"معجم المعاني الجامع " میں ہے:
"الحَضْرَةُ : الحضور
فیروز اللغات میں ہے:
’’حضرت: ۱۔ قرب، نزدیکی، درگاہ۔ ۲۔ جناب، حضور، قبلہ، تعظیم و عزت کا لقب۔
حضور: ۱۔ موجود گی، حاضری، حاضر باشی۔ ۲۔ جناب، حضرت ، قبلہ، حکام کو اس لفظ سے مخاطب کرتے ہیں۔‘‘
(ص: 603، ط: فیروز سنز، پانچویں اشاعت: 2012)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402100223
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن