بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پراپرٹی کے کاروبار کی زکاۃ


سوال

 مجھے جولائی 2010 میں کلب کی جانب سے پلاٹ ملا تھا  ، جس کی ڈاؤن پیمنٹ اور کچھ اقساط میں نے خود جمع کرائیں، جبکہ پلاٹ کی باقی اقساط کے پیسے کلب نے ادا کئےتھے، پہلے تو ارادہ تھا کہ اس پر گھر بناؤں گا، لیکن پھر ارادہ بدل دیا کہ بڑا بیٹا پڑھ رہا ہے، اس کو بیچ کر میڈیکل کالج میں داخل کراؤں گا، میرا بیٹا اس وقت دسویں جماعت میں پڑھ رہا تھا، میرے ادارے کے مالی حالات انتہائی خراب ہوئے اور تین، تین ماہ تک سیلری نہیں آتی تھی، ہمارے کچھ ساتھیوں کو نوکری سے نکال بھی دیا گیا، مجھے بھی تشویش ہوئی اگر نکال دیا تو دوسری نوکری نہیں معلوم کب ملے گی جبکہ گھر کو بھی چلانا ہے، تو سوچا کہ اس پلاٹ کو بیچ کر کوئی پراپرٹی کا کاروبار شروع کروں، میں نے ستمبر 2020 کو پلاٹ 40 لاکھ روپے کے عوض فروخت کرکے ساتھی پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ کاروبار شروع کیا، تین چار ماہ بعد ساتھی نے ڈیڑھ لاکھ روپے کا منافع دیا،میں نے منافع نہیں لیا اور ساڑھے 41 لاکھ روپے کے پرنسپل اماونٹ کے ساتھ مارچ 2021 میں تین ساتھیوں نے مل کر ایک پلازے کی تعمیر شروع کی، پلازے کی تعمیر کاکام تقریبا نومبر /دسمبر میں مکمل ہوا، ابھی اس کو فروخت کریں گے، تقریباً تین چار ماہ ہوگئے ہیں، اس دوران گاہک آئے لیکن کم پیسے دے رہے ہیں، ہم کوشش  کر رہے ہیں  کہ زیادہ پیسوں پر فروخت ہو، پلازہ تعمیر کرنے والے ساتھی پارٹنر سے ہم باقی دو ساتھیوں نے کہا تھا کہ پلازہ کی تعمیر کے بعد آپ ہمیں ضرورت پڑنے  پر تھوڑے پیسے دیں گے، مجھے اب تک 8 لاکھ روپے دے چکا ہے، پلازہ فروخت کرنے کےبعد باقی منافع یک مشت دیں گے، پلازہ کب فروخت ہوگا ابھی اندازہ نہیں ہے، اب اس صورت حال میں میری رہنمائی کریں کہ میں نے کتنی زکاۃ  دینی ہے اور مستقبل  میں بھی کیا طریقہ کار ہوگا؟

جواب

صورت مسؤلہ میں سائل  نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ  جس پلازہ کی تعمیر کی ،اس میں سائل کی  جتنے فیصد شرکت (انویسمنٹ ) ہے ،(مثلا:33 فیصد یا 50 فیصد  ) ،تو سائل  پلازہ میں  موجودہ قیمت فروخت (مارکیٹ ویلیو) کے حساب سے اتنے ہی فیصد کا مالک ہےاور سائل پر  اپنے حصے  کی  ڈھائی فیصد  زکاۃ لازم ہوگی ۔

لہذا اگر سائل پہلے سے صاحبِ نصاب ہے تو مقرر تاریخ پر دیگر اموالِ زکوۃ (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) کے ساتھ مذکورہ  پلازہ میں اپنے حصے  کی زکوۃ بھی ادا کرنی  ہوگی،  اور اگر پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں ہے تو سال پورا ہونے پر   پلازہ کی قیمتِ فروخت کے حساب اپنے حصے  کی  مالیت میں سے  چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی  فیصد بطورِ   زکاۃادا کرنی ہوگی ۔

فتاوى هندية  میں ہے :

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات."

(كتاب الزكاة,الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض ,الفصل الثاني في العروض ,1/ 179ط:دار الفکر )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100652

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں