بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پرافٹ کی جائز حد


سوال

میں قسطوں پر کام کرتا ہوں، کتنا پرسنٹ پرافٹ لگانا جائز ہے اور کہاں تک نا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے خرید  و  فروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضامندی پر رکھا ہے  اور منافع کی مخصوص حد  مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، تاہم تاجر کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائے اور  لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کی جائے ، اس لیے اتنا منافع لینا چاہیے جس میں فروخت کرنے والے کے ساتھ ساتھ خریدار کی مصالح کی بھی رعایت رہے، اور اس کو اس سے ضرر نہ پہنچے۔

الفتاوى الهندية (3/ 161):

"ومن اشترى شيئًا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لا يتغابن الناس فيها فإني لاأحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين."

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 124):

"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقاً للقيمة الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں