بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

پروڈکٹ کی تشہیر کے لیے وی لاگنگ کروانا


سوال

آج کل اپنے پروڈکٹ کی مارکٹنگ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی مشہور وی لاگر (جس کی ویڈیو بہت سے لوگ دیکھتے ہوں) سے معاہدہ ہو اور وہ اپنی ویڈیو میں ہماری پراڈکٹ کا تذکرہ کرے جس سے اس کے دیکھنے والوں تک ہماری پراڈکٹ کا اشتہار پہنچ جائے گا۔ 

وی لاگر کا اشتہار کرنا مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ اسکرین میں صرف ہماری پراڈکٹ دکھا دے، ایک یہ بھی ہے کہ خود ویڈیو میں آکر ہماری پراڈکٹ کا اشتہار کرے،ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ ہماری دکان پر آکر ویڈیو بنائے اور اس ویڈیو کی تشہیر کرے۔

نیز عموماً وی لاگر اپنی ویڈیو یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر وغیرہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ڈالتے ہیں۔آج کل وی لاگر کے ذریعہ تشہیر کرنا ایک مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

براہِ کرم وی لاگر کے ذریعے اپنے پراڈکٹ کی تشہیر کا شرعی حکم بتادیں۔

جواب

 واضح رہے کہ وی لاگر کے ذریعہ اپنے پروڈکٹ کی تشہیر کرانا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1۔  وڈیو جاندار کی تصویر سے خالی ہو،

2۔ وڈیو میں موسیقی نہ ہو،

3۔ جوچیز وڈیو میں دکھائی جارہی ہو، اور اس سے متعلق جو معلومات فراہم کی جارہی ہوں ، حقیقت میں بھی وہی خصوصیات موجود  ہوں، ایسا نہ ہو کہ حقیقت   میں اس چیز  کا معیار گِرا ہوا ہو، اور تشہیر کرتے وقت اسے اعلیٰ اور عمدہ کہا جائے۔  

4۔ وڈیو کے ساتھ غیر شرعی اشتہارات نہ چلتے  ہوِں۔

اگر مذکورہ شرائط کی پاس داری کرتے ہوئے  کسی چیز کی تشہیر کی جائے تو جائز ہوگا، ورنہ نہیں، اور عموماً وی لاگر کے ذریعہ کی جانے والی تشہیر میں یہ مذکورہ خرابیاں موجود ہوتی ہیں، اس لیے احتیاط بہتر ہے، اسی طرح   سوشل میڈیا  کے ذریعہ کسی چیز کی تشہیر  کرانے میں مفاسد کا بہت قوی امکان ہے ، لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے ، کسی اور ذریعہ سے سامان کی تشہیر کرانا بہتر ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله: وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان، يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم."

(سورۃ المائدۃ، آیة:2، ج:2، ص:13، ط: دار طيبة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم : الإجماع علٰی تحریم تصویر الحیوان، وقال: وسواء لما یمتهن أو لغیره فصنعه حرام لکل حال، لأن فیه مضاهاة لخلق اللّٰہ".

(ج:1، ص:674، ط: دار الفكر)

و فيه ايضاّ:

" قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: استماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام؛ لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص: 348 ، ط:دار الفكر)

مجمع الأنهر فی شرح ملتقى الأبحر:

" لايجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي)؛ لأن المعصية لايتصور استحقاقها بالعقد فلايجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لايحل له ويجب عليه رده على صاحبه. وفي المحيط: إذا أخذ المال من غير شرط يباح له؛ لأنه عن طوع من غير عقد. وفي شرح الكافي: لايجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح، والمزامير، والطبل أو شيء من اللهو ولا على قراءة الشعر ولا أجر في ذلك. وفي الولوالجي: رجل استأجر رجلاً ليضرب له الطبل إن كان للهو لايجوز، وإن كان للغزو أو القافلة أو العرس يجوز؛ لأنه مباح فيها."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة،ج:2، ص:364، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں