بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پروڈکٹ کی تشہیر کی غرض سے تصاویر لگانے کا حکم


سوال

 RTCملبوسات مثلاً :شرٹ،ٹائى،موسم سرما كے كوٹ،سويٹرز اور تمام موسموں كے حساب سے شلوار،كُرتے وغيرہ اور اس جيسى دوسرى پروڈكٹس كو بيچنے كى ايك كمپنى ہے، اس كے علاوہ RTCكى مختلف شہروں ميں اسى كام كے ليے دكانيں بھى ہيں۔ ہم اپنی دکانوں پر مارکیٹنگ کی غرض سے مختلف جینٹس سیلیبرٹیز(Celebrities) اور ماڈلز (Models)کو اپنی پروڈکٹ پہناکراُن کی تصاویر لے کر اشتہار کے لیےپینافلیکس پر چھپواتے ہیں اوردکانوں پر مشہوری کی غرض سے لگاتے ہیں،اس کے علاوہ اُن کی ایک مختصر سی وڈیو کلپ بناتے ہیں جس کو دکانوں پر LCD,sکے ذریعے بعد میں چلاتے ہیں۔ بعض علماء کرام سے معلوم کیا تو اُنہوں نے انسانی تصاویر کواُن کے چہرے سمیت چھپوانے اور دکانوں پر لگانے سے سختی سے منع کیا، تو ہم نے اُن علماء کرام کو یہ بتایا کہ تصاویر کے حرام ہونے کی جو وجہ اور علت پہلے تھی،آج کل کے زمانے میں ہمارے پاکستان میں وہ نہیں پائی جاتی(اور وہ علت یا تو تصاویر کی عبادت تھی یا خالقِ کائنات کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے کی تھی)آج کل تو نہ کوئی عبادت کی غرض سے تصاویر لگاتے ہیں اور نہ ہی خالقِ کائنات کے ساتھ مشابہت اختیار کی جاتی ہے، بلکہ اپنی پروڈکٹ کی پہچان اور مشہوری کے لیے یہ تصاویر دکانوں پر یا اپنی پروڈکٹ پر لگائی جاتی ہیں، اور اب ایک ضرورت بھی بن گئی ہے کہ ایک کمپنی کی پروڈکٹس اُس وقت تک صحیح طریقے سے نہیں بِکتی ،جب تک وہ پروڈکٹس مختلف ماڈلز کو پہنا کر نہ دکھائی جائیں، کیوں کہ لوگ مختلف ماڈلز کے چاہنے والے ہوتے ہیں اور اُن کی دیکھا دیکھی وہ بھی اُس پروڈکٹ کو خریدتے ہیں۔ تو اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس زمانے میں بھی انسانی تصاویر کواُن کے چہرے سمیت چھپوانے اور دکانوں پر لگانے سے ممانعت ہوگی یا نہیں؟ جب کہ مذکورہ دونوں علتیں آج کل نہیں پائی جاتیں۔

جواب

دینِ اسلام میں جان دار کی  تصویر سازی، کسی بھی شکل میں ہو ،کسی بھی طریقے سے بنائی جائے، بناوٹ کے لیے جو بھی آلہ استعمال ہو، کسی بھی غرض و مقصد سے تصویر بنائی جائے، اللہ تعالیٰ کی صفت ِ تخلیق میں  مشابہت بہر صورت پائی جاتی ہے ؛ لہذا جہاں بھی یہ علت پائی جائے گی وہ   کام حرام ہوگا ،خواہ کسی بھی نیت سے کیا جائےیاکسی بھی آلے سے کیا جائے؛  لہذا تصویر چاہے جس مقصد سے بھی بنائی  جائے  وہ حرام ہے ۔ جن احادیث میں جان دار کا مجسمہ  یا تصاویر بنانے کی ممانعت آئی ہیں ان میں یہ قید نہیں کہ عبادت کی غرض  سے بنانا منع ہے ،بلکہ مطلقا ً منع ہے ۔

صورت ِ مسئولہ میں  کمپنی کا اپنی پروڈکٹ کی پہچان اور مشہوری کے لیے  ماڈلز کی تصاویر  بنا کر دکانوں پر آویزاں کرنا  شرعاً جائز نہیں ہے ،اپنی دکان اور پروڈکٹ کی مشہوری  کے لیےدیگر  جائز ذرائع استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أشد الناس عذاباً عند الله المصورون»."

(کتاب اللباس ،باب التصاویر،ج:2،ص:1274،المکتب الاسلامی)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ  کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور (تصویر بنانے والا)ہے"۔

وفيه أيضا:

"وعن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أشد الناس عذاباً يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله»."

(کتاب اللباس ،باب التصاویر،ج:2،ص:1274،المکتب الاسلامی)

ترجمہ:" حضرت عائشہ ؓ  ، رسول کریمﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ  آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب  ان لوگوں کو ہوگا جو تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔"

صحیح  بخاری میں ہے :

"عن ابن عباس، عن أبي طلحة رضي الله عنهم قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (لا تدخل الملائكة ‌بيتا ‌فيه ‌كلب و لا تصاوير)."

(کتاب اللباس، باب التصاویر، ج:5، ص:2220، رقم :5605، ط: دار ابن کثیر)

"حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس گھر میں کتا اور تصاویر ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔"

فتاوی شامی میں ہے :

"لأن علة حرمة التصوير المضاهاة لخلق الله تعالى، وهي موجودة في كل ما ذكر."

(کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا،ج:1،ص:647،سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم"أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم" ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه ‌مضاهاة ‌لخلق ‌الله تعالى."

(کتاب الصلاۃ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100993

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں