بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پراڈکٹ کی قیمت میں ٹیکس کی رقم شامل کرکے کسٹمر سے وصول کرنا


سوال

 ہمارا بیٹری کا کاروبار ہے اس کاروبار میں حکومت مختلف قسم کے ٹیکسز لگاتی ہے ،تو کیا ہم پر لازم ہے کہ ہم جو ریٹ لسٹ بناتے ہیں یا پھر کسی کو زبانی طور پر ریٹ بتاتے ہیں ،اس میں ان ٹیکسز کا اظہار کریں ،اور اگر ہم ان ٹیکسز کا اظہار کرتے ہیں اور کسٹمرز سے وہ رقم وصول کرتے  ہیں ،تو اگر وہ ٹیکس حکومت کو  کسی وجہ سے ادا  نہ کیا جائے یا حکومت وہ ٹیکس معاف کر دے تو اس رقم کا کیا حکم ہوگا؟جس طرح ہم اپنے مال  کی قیمت میں  دیگر اخراجات مثلاً ملازمین کی تنخواہ ،کرایہ وغیرہ کو شامل کرتے ہیں لیکن ظاہر نہیں   کرتے ،تو کیا ٹیکس کو بھی اسی طرح ایک خرچہ تصور کر کے شامل کرنا اور اس کو ظاہر نہ کرنا جائز ہے؟بعض لوگوں کا یہ اعتراض ہے کہ یہ دھوکہ ہے،رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  ہر شخص کے لیے  اپنی مملوکہ چیز کمی ، زیادتی کے ساتھ فروخت کرنا جائز ہوتا ہے، لہذا  اگر کوئی شخص اپنی کسی چیز کو فروخت کرتے ہوئے اس میں اپنے  واقعی یا متوقع اخراجات لگاکر اپنی چیز کی کوئی قیمت طے کرتا ہے تو اس کو اس کااختیار ہوتا ہے، البتہ اگر خریدار  کو قیمت بتاتے ہوئے، متوقع اخراجات کو الگ سے ظاہر کرکے بتایا جائے اور اس کو قیمت کا حصہ بنایا جائے، پھر وہ اخراجات نہ ہوں تو یہ ایک قسم کا دھوکا ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اپنی  پراڈکٹ کی قیمت  میں ٹیکس کی رقم کی الگ سے صراحت کرکے کسٹمر سے وصول کرے گا تو اس  پر لازم ہوگا کہ وہ یہ وصول کیا ہوا ٹیکس حکومت کو ادا کردے،  کسٹمر سے ٹیکس کے نام پر رقم وصول کرکے، حکومت کو ادا  نہ کرنا کسٹمر کے ساتھ دھوکا دہی ہے، اس سے بچنا ضروری ہے، اگر كسٹمر سے ٹيكس كے نام پر الگ سے رقم وصول كی  جائے اور بعد  ميں حكومت كو كسی وجہ سے وه ٹيكس ادا  نہ كيا جائے يا  حكومت وه ٹيكس معاف كردے  تو اس صورت ميں وه رقم كسٹمر كو واپس كرنا ضروری ہوگا  اگر کسٹمر کے بارے میں علم ہو، ورنہ صدقہ کرنا لازم ہوگا۔

البتہ  اگر سائل  اس ٹیکس کو اپنے متوقع اخراجات میں شمار کرکے اپنی چیز کی  اس حساب سے کچھ زیادہ قیمت مقرر کردے اور کسٹمر سے ٹیکس کی بات نہ کرے تو یہ جائز ہے، اس لیے کہ خرید وفروخت کے عام معاملہ میں  کسٹمر کو ہر قسم کے اخراجات کی تفصیل بتانا شرعاً ضروری نہیں ہوتا  اور  ہر شخص کو  اپنی مملوکہ چیز   اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت کرنے کا اختیار  بھی ہوتا ہے،البتہ نفع اتنا رکھا جائے جو خریدار کی قوّتِ خرید  کے بقدر ہو، اور عام مارکیٹ سے زیادہ نہ ہو، بہت زیادہ   نفع رکھنا  جو عام مارکیٹ سے زائد ہو، مکروہ ہے ۔ نیز اس صورت میں اگرحکومت وہ ٹیکس کی رقم معاف کردیتی ہے تو کسٹمر کو وہ رقم واپس کرنا لازم نہیں ہوگا۔

 درر الحكام فی شرح  مجلۃ الاحکام  میں ہے:

"‌كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

(3/ 201 الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك، ، ط: دار الجيل)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(فأما) الذي يرجع إلى أحد البدلين وهو الثمن فينقسم في حق البدل، وهو الثمن خمسة أقسام: بيع المساومة وهو مبادلة المبيع بأي ثمن اتفق."

(5/ 134،  کتاب البیوع، فصل فی شرائط رکن البیع، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309101429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں