بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرائز بانڈز کی خرید و فروخت کرنا اور لاٹری میں حصہ لینا شرعا جائز نہیں ہے


سوال

کیا پرائز بانڈز اور  لاٹری حرام ہے؟

جواب

پرائز بانڈ کی خرید وفروخت اور اس پر ملنے والا انعام ناجائزا ور حرام ہے،  کیوں کہ اس میں سود اور جوا پایا جاتا ہے۔

پرائز بانڈز میں سود کا وجود تو بالکل ظاہر ہے کیوں کہ سود کی حقیقت یہ  ہے کہ مال کا مال کے بدلے معاملہ کرتے وقت ایک طرف ایسی زیادتی مشروط ہو جس کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو، بعینہ یہی حقیقت بانڈز کے انعام میں بھی موجود ہے، کیوں کہ ہر آدمی مقررہ رقم دے کر پرائزبانڈز اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس سے قرعہ اندازی میں نام آنے پر اپنی رقم کے علاوہ  زیادہ رقم مل جائے، اور یہ زائد اور اضافی رقم سود ہے، کیوں کہ شر یعت میں ایک جنس کی رقم  کاتبادلہ اگر  آپس میں  کیا جائے تو برابری کے ساتھ لین دین کرنا ضروری ہوتا ہے، کمی بیشی کے ساتھ لین دین کرنا سود ہے، اسی طرح سود کی ایک اور حقیقت جو قرآن  کریم کے نازل ہونے سے پہلے بھی سمجھی جاتی تھی  وہ یہ تھی کہ قرض دے کر اس پر نفع لیاجائے، سود کی یہ تعریف ایک حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے :

کل قرض جر منفعة فهو ربوا“.

یعنی ہر وہ قرض جو نفع کمائے وہ سود ہے،  لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ جو زیادتی قرض کی وجہ سے حاصل ہوئی ہو وہ بھی سود میں داخل ہوگی، اور سود کی یہ حقیقت بانڈز کے انعام پر بھی صادق آتی ہے، کیوں کہ  بانڈز کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے،  حکومت اس قرضہ کو استعمال میں لاتی ہے اور قرضہ کے عوض لوگوں سے ایک مقررہ مقدار میں انعام کا وعدہ کرتی ہے اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے انعامی رقم  کے نام سے سود کی رقم لوگوں میں تقسیم کردی جاتی ہے، جو ناجائز اور حرام ہے۔

اسی طرح پرائزبانڈ ز  میں جوا بھی شامل ہے ، '' جوا '' جسے عربی زبان میں’’ قمار ‘‘ کہا جاتا ہے در حقیقت ہر وہ معاملہ ہے جس میں’’مخاطرہ ‘‘ ہو، یعنی قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع ونقصان کے خطرے کی بنیاد  پرہو، اورپرائز بانڈز کے حصہ داران زائد رقم وصول کرنے کی غرض سے رقم جمع کراتے ہیں، لیکن معاملہ قرعہ اندازی اور اس میں نام آنے پر مشروط ہونے کی وجہ سے یہ لوگ خطرے میں رہتے ہیں کہ زائد رقم ملے گی  یانہیں، اس سے واضح ہوا کہ  پرائز بانڈز جوئے اور سود کا مجموعہ ہے، لہذا پرائز بانڈ ز کی خریدوفروخت کرنا اور اس سے  ملنے والا انعام حاصل کرنا شریعت کی رو سے  ناجائز اور حرام ہے۔

اسی طرح لاٹری بھی درحقیقت سود اور جوئے پر مشتمل ہوتی ہے، "سود" اس طور پر کہ مثلاً ایک سو روپے کی لاٹری میں اگر انعام کے نام سے ملنے والی رقم نکل آئے تو ایک سو روپے سے زائد جتنی بھی رقم ہے وہ ساری کی ساری بلا عوض ہے جو کہ عین سود ہونے کی وجہ سے لینا حرام ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ اور اس میں "جوا" اس طور پر ہے کہ لاٹری میں لگائی گئی کل رقم ڈوب جانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے اور نہ ڈوبنے کا بھی امکان ہوتا ہے، لہٰذا لاٹری بھی شرعاً حرام ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں