بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرائز بانڈ کی خرید و فروخت اور اس سے حاصل ہونے والے نفع کا حکم


سوال

کیا پرائز بانڈ لینا اور اس سے حاصل ہونے والا منافع جائز ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں پرائز بانڈ کا کاروبار کرنا شرعاً جائز نہیں، اس لئے کہ پرائز بانڈ کا اصل مقصد انعام پانا ہے اور یہ انعام شرعاً صریح سود ہے اور اگر انعام نکل آئے تو وہ انعام لینا شرعاً حرام  اور ناجائز ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: ‌لعن ‌رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال: "هم سواء". رواه مسلم

(‌‌‌‌‌‌كتاب البيوع، باب الربا، الفصل الأول: 2/ 855، ط: المكتب الإسلامي، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل ‌قرض ‌جر نفعا حرام۔ قال ابن عابدین: (قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا۔"

(‌‌‌‌کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، فصل في القرض: 5/ 166، ط: سعید)

بحوث في قضایا فقهیة معاصرة:

"السند (BONDS) في الإصطلاح المعاصر وثیقة یصدرها المدیون لمقرضه اعترافًا منه بأنّه استقرض من حاملها مبلغًا معلومًا یلتزم بأدائه في وقت معلوم… وإنّ هذہ السندات، سواء أصدرتها الشرکات أو أصدرتها الحکومة إنّما تلتزم بأداء فوائد ربویة إلی من یحملها، فالسند الّذي قیمتة الإسمیة مائة ربیة مثلاً تستحق أن یدفع لحاملها مائة و عشرة بعد سنة۔"

(بیع الدین والأوراق المالیة: 2/ 111، ط: دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں