بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرنٹنگ کے کام میں تصاویر بنانے کا حکم


سوال

میرا ارادہ آن لائن پرنٹنگ آن ڈیمانڈ بزنس کرنے کا ہے، اس میں، میں کمانڈز لکھتا ہوں اور ان کمانڈز کو ایک سافٹ ویئر میں ڈالتا ہوں، جو کمانڈز کی بنیاد پر ڈیزائن اور تصاویر تیار کرتا ہے، ان ڈیزائنوں کو پھر پی او ڈی کمپنی کپڑوں پر پرنٹ کرتی ہے، کیا حکم کی بنیاد پر ایسے ڈیزائن بنانا جائز ہے ؟کیوں کہ میں خود تصویریں نہیں بنا رہا ہوں، بلکہ سافٹ ویئر تصویریں بنا رہا ہے؟ کیا کمائی حلال ہوگی؟

جواب

شریعتِ  مطہرہ  میں جان دار  کی تصویر کشی اور تصویر سازی کی ممانعت ہے اور اس پر وعیدات وارد ہوئی ہیں،  جان دار کی تصویر سے مراد یہ ہے کہ ایسی تصویر ہو جس سے اس کا جان دار ہونا معلوم ہوتا ہو ،  یہی وجہ ہے اگر تصویر کا سر کا حصہ چہرے سمیت  کاٹ دیا جائے تو نچلے دھڑ کا حصہ شرعاً حرام تصویر کے حکم میں نہیں ہوگا، البتہ اگر نچلا دھڑ نہ ہو اور صرف اوپر کا حصہ ہو یا صرف مکمل چہرہ تب بھی یہ حرام تصویر میں داخل ہوگا۔

لہذامذکورہ بالاتفصیل کے مطابق گرافکس اور پرنٹنگ کے کام میں جان دار  کی تصاویر بنانا شرعاً  جائز  نہیں ہے،چاہے خود ہاتھ سے تصویر بنائی جائے،یا پرنٹ کےذریعہ ؛ کیوں کہ  جس طرح تصویر بنانا ایک حرام کام ہے،اسی طرح تصویر کا پرنٹ کرنا بھی حرام ہے،اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہے اور  اس کا لینا اور دینا دونوں ناجائز ہے۔  نیز غیر جان دار کی تصاویر بنانا منع نہیں ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وفي شرح السنة: فيه دليل على أن الصورة إذا غيرت هيئتها بأن قطعت رأسها أو حلت أوصالها حتى لم يبق منها إلا الأثر على شبه الصور فلا بأس به، وعلى أن موضع التصوير إذ نقض حتى تنقطع أوصاله جاز استعماله. قلت: وفيه إشارة لطيفة إلى جواز تصوير نحو الأشجار مما لا حياة فيه، كما ذهب إليه الجمهور وإن كان قد يفرق بين ما يصير ومآلًا وانتهاءً وبين ما يقصد تصويره ابتداءً. والله أعلم."

(كتاب اللباس، باب التصاوير، ج:7، ص:2855، ط:دار الفكر۔بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: أو مقطوعة الرأس ) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر أو يطليه بمغرة أو بنحته أو بغسله؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً، وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس؛ لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين؛ لأنها تعبد بدونها، وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين، بحر. 
 (قوله: أو ممحوة عضو الخ ) تعميم بعد تخصيص وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبةً البطن مثلاً، والظاهر أنه لو كان الثقب كبيراً يظهر به نقصها فنعم وإلا فلا، كما لو كان الثقب لوضع عصا تمسك بها كمثل صور لخيال التي يلعب بها؛ لأنها تبقى معه صورة تامة، تأمل. (قوله: أو لغير ذي روح ) لقول ابن عباس للسائل: فإن كنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس له. رواه الشيخان. ولا فرق في الشجر بين المثمر وغيره خلافاً لمجاهد، بحر ."  

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1،ص:648، ط:دار الفكر۔بيروت)

العناية شرح الهداية"میں ہے:

"(و لايجوز الإستئجار على سائر الملاهي لأنه استئجار على المعصية و المعصية لاتستحق بالعقد) فإنه لو استحقت به لكان وجوب ما يستحق المرء به عقابًا مضافًا إلى الشرع و هو باطل."

 (ج:9، ص:98، ط:دار الفکر۔بیروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507101970

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں