میں ایک اسکول میں دوپہر کے وقت بحیثیت استاذ اپنی خدمت انجام دے رہا تھا، جب کہ میں صبح کے وقت مدر سے میں پڑھاتا ہوں، اسکول میں میں نے ایک سال تک خدمت سرانجام دی تھی، اس سال وقت کی کمی کی وجہ سے اسکول بروقت نہیں پہنچ سکتا تھا، جس کی وجہ سے مجھے اسکول سے استعفی دینا پڑا، اسکول میں اپریل کو پڑھائی شروع ہوئی تھی، میں نے اپریل کے مہینے اسکول میں پڑھایا جب کہ اس مہینے میں بہت سی کتابوں کے استاذ ان کے پاس موجود نہیں تھے، جب میں نے استعفی دیا تو اسکول کے پرنسپل نے کہا کہ آپ ابھی جانا چاہتے ہو تو آپ کو ایک مہینے کی تنخواہ نہیں ملے گی اور یوں کہا کہ یہ اصول ہے اب سوال یہ ہےکہ کیا یہ اصول شرعی لحاظ سے ٹھیک ہے، جس میں میرا نقصان ہے اور اگر میں استعفی نہ دیتا تب طلبہ کا نقصان ہوتا کیوں کہ مجھے ذہنی سکون حاصل نہیں تھا، جب کہ پرنسپل نے یوں بھی کہا ہے کہ ہمیں استاذ کی ضرورت نہیں اور ہمارا یہ رتبہ نہیں کہ ہمیں کسی استاد کی ضرورت ہو تو کیا ان کا میری تنخواه کاٹنا شرعاً جائز ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپریل کے پورے مہینے میں اگر پڑھایا ہو،تو اسکول پرنسپل کا صرف استعفٰی کی وجہ سے اس مہینے کی تنخواہ کاٹنا جائز نہیں ہوگا، پرنسپل پر شرعا لازم ہوگا کہ سائل کو اپریل کے مہینے کا مشاہرہ ادا کرے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيلأو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها."
(كتاب الإجارة، الباب الثاني، ج: 4، ص: 413، ط: دارالفكر)
وفيه ايضاً:
الأجير المشترك من يستحق الأجر بالعمل لا بتسليم نفسه للعمل والأجير الخاص من يستحق الأجر بتسليم نفسه وبمضي المدة ولا يشترط العمل في حقه لاستحقاق الأجر."
(كتاب الإجارة، الباب الثامن والعشرون، الفصل الأول، ج: 4، ص: 500، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102479
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن