بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پرائز بانڈ پر زکات کا حکم


سوال

 میرے پاس پرائز بانڈز  کی شکل میں دوسال سے پانچ لاکھ مالیت کے بانڈ  ہیں، اس کے علاوہ کوئی مال نہیں ہے،  کیا ان پر زکوٰۃ واجب ہو گی  اور اگر ہو گی تو کتنی ہو گی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں مذکورہ بانڈ ز  کی اصل رقم  اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی یا اس سے زائد ہو تو  اصل رقم  کا چالیسواں حصہ  (ڈھائی فیصد) بطور  زکات ادا کرنا واجب ہوگا، اسی ترتیب سے دونوں سالوں کی زکات ادا کی جائے گی، یعنی اگر دو لاکھ روپے ان بانڈز کی اصل مالیت ہے تو دو لاکھ روپے کا ڈھائی فیصد (پانچ ہزار روپے) بطورِ زکات ادا کرنا ہوگا۔

تاہم اصل رقم کے اوپر ملنے والی رقم چوں کہ سودی ہے، لہذا اس پر زکات واجب نہ ہوگی، بلکہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہوگا، اور سائل نے اگر اپنے اختیار سے پرائز بانڈ لیے ہیں تو اسے توبہ و استغفار بھی کرنا چاہیے اور اصل قیمت کے عوض انہیں واپس کردینا چاہیے، کیوں کہ پرائز بانڈ سود اور جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

النتف فی الفتاوی للسغدی میں ہے:

"السبب الرابع من اسباب وجوب الزكاة

والرابع من أسباب وجوب الزكاة هو ان يكون المال حلالا لأن المال اذا كان حراما لا يخلو من وجهين اما ان يكون له خصم حاضر فيرده عليه

واما أن لايكون له خصم حاضر فيعطيه للفقراء كله ولا يحل له منه قليل ولا كثير والزكاة انما تكون في المال الحلال."

( كتاب الزكاة، ١ / ١٧٢، ط: مؤسسة للرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200593

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں