بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ عورت كا دودھ پلانے کا حکم


سوال

سوال  یہ ہے کہ ایک دوست کی بیوی حمل سے ہے، جب کہ ان کا 9 ماہ  کابچہ ہے، جو ماں کا  دودھ پیتا  ہے، تو کیا جب حمل تین ماہ کا ہوجائے تو  پہلے بچے  (جو دودھ پر ہے)کے لیے ماں کا دودھ پینا حرام ہوجاتا ہے؟براہِ مہربانی ہمیں بتائیں کہ کیا بچے کا دودھ بند کرنا چاہیے ؟اس لیے کہ پیٹ میں پل رہے بچے کی عمر تین ماہ ہوچکی ہے یااس كے بچے کو دودھ پلایا جا سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  شرعی اعتبار سے  سائل کی دوست کی حاملہ بیوی کے لیے  اپنے پہلے  9 ماہ کےبچے کو دودھ پلانے کی ممانعت نہیں ہے، اور یہ بات کہ جو بچہ حمل میں ہو اس کے تین ماہ کے ہوجانے تک پہلے بچے کو دودھ پلانا حرام ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، البتہ اگر ماہر دین دار طبیب /ڈاکٹر حاملہ ہونے کی وجہ سے دودھ کے خراب ہونے اور دودھ پینے والے بچے کی صحت پر اثر پڑنےکے اندیشے کی وجہ سے اس حال میں دودھ پلانے سے منع کرے، تو اس کی رائے پر عمل کرنا درست ہوگا اور اس صورت میں دودھ نہ پلانے میں کوئی حرج نہیں، حاصل یہ ہے کہ حالتِ حمل میں بچے کو دودھ پلانا ناجائز نہیں، البتہ طبی اعتبار سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوتو دودھ پلانے سے احتراز کرنا درست ہوگا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

"عن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ : ان رجلا جاء الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: انی اعزل عن إمرأتي ، فقال له رسول الله صلي الله عليه وسلم: لم تفعل ذلك؟ فقال الرجل : اشفق علي ولدها، فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم : لو كان ضارا ضرفارس والروم."

(مشکوۃ المصابیح،  کتاب النکاح ، باب المباشرۃ ، الفصل الأول ،ص/208، ط:مکتبة البشرٰی کراتشی)

مرقاة فی شرح المشكاة ميں ہے:

"(فقال رجل : أشفق) أي أخاف (علي ولدها) أي الذي في البطن لئلايصير توأمين فيضعف كل منهما، أو علي ولدها الذي ترضعه لماسيأتي أن الجماع يضره۔ وقيل: أي أخاف إن لم أعزل عنهالحملت وحينئذ يضر الولد الإرضاع في حال الحمل (فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: لو كان ذلك ) أي الجماع حال الارضاع أو الحبل( ضارا ضر فارس والروم ) أي أولادهما، يعني ترضع نساء الفرس والروم أولادهن في حال الحمل، فلو كان الإرضاع في حال الحمل مضرا لأ ضر اولادهن ."

(کتاب النکاح،  ج:6، ص: 317، ط: دارالكتب العملية بيروت)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

"وعن جذامة بنت وهب قالت : حضرتُرسول اللہ ﷺ في أناس وهو یقول : ’’ لقدهممتُ أن أنهی عن الغیلة، فنظرت في الروم وفارس ، فإذاهم یغیلون أولادهم ، فلا یضرّ أولادهم ذلك شیئًا."

(مشکوۃ المصابیح،  کتاب النکاح ، باب المباشرۃ ، الفصل الأول ،ص/208، ط:مکتبة البشرٰی کراتشی)

مرقاة فی شرح المشكاة ميں ہے:

"الغیلة: بكسر الغين المعجمة، أي الإرضاع حال الحمل." 

(مرقاة في شرح المشكاة، کتاب النکاح،  ج:6، ص: 317، ط: دارالكتب العملية بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں