بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پی آر سی سرٹیفیکیٹ بیچنا


سوال

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ "پی آر سی" کا بیچنا کم قیمت میں دوسرے ڈیلرز کو جو اس کو باہر ممالک میں کسی چیز کی ڈیٹنگ میں استعمال کرتے ہیں بطورِ وثیقہ کے جائز ہے یا نہیں جب کہ "پی آر سی" آپ مثلاً دس لاکھ روپیہ کی بناتے ہیں اور اس کو پھر مثلاً پچاس ہزار میں مذکورہ بالا ڈیلرز کو بیچا جاتا ہے، یہ جائز ہے یا نہیں؟
"پی آر سی" کے حوالے سے وضاحت درج ذیل ہے:
1- "پی آر سی"  مجھے اپنے ان پیسوں کے بدلے جاری کیا جاتا ہے جو مجھے باہر مثلاً دبئی سے میرے خونی رشتے دار مثلاً بھائی نے بھیجے ہوں، یہ "پی آر سی" ان پیسوں کی گارنٹی ہوتی ہے کہ اس بندے کو یہ ٹرانزیکشن ہوئی ہے، اس کے اکاؤنٹ میں یہ پیسہ موجود ہے۔
2- "پی آر سی" اکاؤنٹ ہولڈر بینک سے بنواتا ہے، پھر آگے کچھ رقم لے کر بیچ دیتا ہے ان بزنس مین کو جو اس کو خرید کر اپنی گاڑیوں کی کلیرنس کراتے ہیں، جو گاڑیاں باہر سے منگوائی جاتی ہیں  پورٹ پر ان کی کلیرنس کراتے ہیں۔
3- بینک تو صرف اپنے اکاونٹ ہولڈر کی ضرورت پر یہ جاری کرتا ہے، کسی خاص شرط کا مجھے علم نہیں۔
اس سرٹیفکیٹ کی لنک ارسال ہے۔(...)

جواب

صورتِ مسئولہ اور آپ کے دیے گئے  لنک سے یہ واضح ہے کہ بینک "پی آر سی " اس بات کی صراحت کے لیے جاری کرتا ہے کہ اس اکاؤنٹ ہولڈر کے پاس یہ رقم باہر ملک سے آئی ہے۔ اب اگر کوئی شخص باہر سے رقم منگواکر  کسی ٹرانزینکشن کے لیے "پی آر سی" بنوائے اور پھر بعد میں کسی  ایسے شخص کو بیچ دے جو کہ اس اکاؤنٹ ہولڈر کے "پی آر سی " کو اپنی ٹرانزینکشن کے لیے استعمال کرے،   یہ سرٹیفیکیٹ آگے بیچنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ  اس صورت میں اپنی  ٹرانزینکشن کا سرٹیفکیٹ آگے بیچا گیا  جو کہ در حقیقت کوئی بیچی جانے والی چیز نہیں ہے۔

نیز اگر یہ لینے والا آگے جھوٹ بول کر اس سرٹیفکیٹ کو اپنا ظاہر کرے تو آپ کے لیے اس میں  ناجائز کام میں مدد کا گناہ بھی ہوگا، لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔

البتہ اگر لینے والا کسی قسم کا جھوٹ  نہ بولے اور اس کو دھوکا دے کر اپنا ظاہر نہ کرے اور قانونًا اس کی گنجائش بھی ہو تو سرٹیفکیٹ دینا تو جائز ہوگا، لیکن اس کا بیچنا جائز نہ ہوگا۔

الفتاوى الهندية (3/ 2):

"فمبادلة المال بالمال بالتراضي، كذا في الكافي".

الفتاوى الهندية (3/ 2):

"ومنها في البدلين وهو قيام المالية حتى لاينعقد متى عدمت المالية، هكذا في محيط السرخسي".

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144203200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں