بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پراویڈنٹ فنڈ کا حکم


سوال

میرے دوست نے حال ہی میں استعفی دیا ہے ۔ اسے اس کی کمپنی سے پراوڈنٹ فنڈ ملا ہے جس میں پراویڈینٹ فنڈ کی سود کی رقم بھی شامل ہے ،اس سے میں نے ادھار مانگا تھا تو اس نے وہ رقم مجھے دے دی ؛ کیوں کہ اس کو وہ سود کی رقم کسی کو دینی تھی بغیر ثواب کی نیت کے کیونکہ وہ اسے اپنے مصرف میں نہیں لا سکتا تھا ،  تو مجھے یہ جاننا ہے کہ کیا وہ رقم مجھ پر حلال ہے یا حرام ؟ میں اسے اپنے استعمال میں لے سکتا ہوں۔

جواب

صورت مسئولہ میں پراویڈنٹ  کی مد میں             ملنے والی رقم  کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ  اگر ادارے کی طرف سے جبرا کٹوتی  ہوتی تھی   ادارے کی طرف سے عدم شمولیت کا اختیار نہیں تھا تو   اس صورت میں  پراویڈنٹ فنڈ کی مد  میں           ملنے والی رقم  کا سائل کے دوست کے لیے لینا جائز ہے   اس لیے کہ یہ ادارے کی طرف سے تبر ع وانعام ہے ، لیکن  اگر  ادارے کی طرف  سے  فنڈ کا حصہ  بننا لازمی نہیں تھا ، بلکہ اختیا ری تھا  تو اس صورت میں  پراویڈنٹ فنڈ کی مد میں             ملنے والی رقم  میں سائل کا دوست اتنی ہی رقم لے سکتا ہے کہ جتنی رقم  اس نے جمع کروائی تھی اور  اس کے ادارے نے اس  کے ساتھ جو رقم جمع کرائی تھی۔  ان دونوں رقوم پر جو زائد رقم  انٹرسٹ کے نام سے ملتی ہے وہ لینا جائز نہیں ہو گا،  اس لیے کہ یہ سود ہے ،  اگر اس صورت میں زائد رقم لے لی ہے تو ادارے کو  واپس کرنا ضروری ہے ، یا ثواب کی نیت  کیے  بغیر کسی فقیر کو  صدقہ کرنا ضروری ہے   ، لہذ ا  اگر دوسری صورت کے مطابق   ہے تو سائل کے لیے سودی رقم  قرض پر لینا درست نہیں ۔

عرف الشذی شرح سنن ترمذی میں ہے:

"إنّ ها هنا شيئان:  أحدهما: ائتمار أمر الشارع والثواب عليه.   والثاني: التصدق بمال خبيث، والرجاء من نفس المال بدون لحاظ رجاء الثواب من امتثال الشارع، فالثواب إنما يكون على ائتمار الشارع، وأما رجاء الثواب من نفس المال فحرام، بل ينبغي لمتصدق الحرام أن يزعم بتصدق المال تخليص رقبته ولا يرجو الثواب منه، بل يرجوه من ائتمار أمر الشارع، وأخرج الدارقطني في أواخر الكتاب: أن أبا حنيفة رحمه الله سئل عن هذا فاستدل بما روى أبو داود من قصة الشاة والتصدق بها."

(ابواب الطھارۃ ، 1/ 38،دار التراث العربي)

البحر الرائق  میں ہے :

"(قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط".

(کتاب الاجارۃ،300/7،دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں