بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پراپرٹی میں بروکری کی مختلف صورتوں کاحکم


سوال

1۔پراپرٹی کے کاروبار میں کوئی شخص مثلا کسی کا مکان بیچتاہے اور اس سے بطور کمیشن ایک فیصد لیتاہے ، اسی طرح خریدنے والے سے کمیشن کے طورپر کچھ رقم طے کرکے لیتاہے ، سوال یہ ہے کہ ایک شخص کابائع اور مشتری دونوں سے طے کرکے کمیشن لینا درست ہے ؟اگر جانبین سے کمیشن لینا درست نہیں تو کیاایک جانب مثلا صرف بائع سے لے سکتاہے ، جائز طریقہ  بتائیں ۔

2 پراپر ٹی ڈیلر کسی شخص سے مثلا اس کا کوئی مکان پچاس لاکھ میں خریدتاہے  اسے پانچ لاکھ بیعانہ بھی دے دیتاہے اور کہتاہے کہ باقی رقم چار مہینوں  میں دے دوں گا، اس دوران پراپرٹی ڈیلر وہ مکان ساٹھ لاکھ میں فروخت کردیتاہے اور اس شخص کو اس کی رقم دے دیتاہے ، سوال یہ ہے کہ کیا مکمل رقم ادا کرنے سے پہلے اس مکان کو آگے بیچنا  اورا س پر نفع کمانا درست ہے ، اگر نہیں تو جائز صورت کیاہے ؟

3۔ کبھی کبھار کوئی شخص مکان فروخت کروانے کے لیے پراپر ٹی ڈیلر کے پاس آتاہے کہ میراپلاٹ پچاس لاکھ کا فروخت کرکے دو ، پراپر ٹی ڈیلر  اسے پچپن لاکھ میں فروخت کرتاہے  اور بائع کو یہ نہیں بتاتاکہ ہم نےپچپن لاکھ میں فروخت کیاہے ، تو کیا اس طرح بائع کو بتائے بغیر پانچ لاکھ نفع کمانا درست ہے ۔

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں اگر بروکر فروخت کنندہ اور خریدنے والے دونوں کے درمیان کردار اداکرے تو بروکردونوں سے متعین اجرت لے سکتاہے ،بشرطیکہ   ہر ایک  سےکمیشن کا معاہد ہ ہواہو تو ایسی صورت میں جانبین ( بائع ، مشتری ) سے کمیشن لینا جائز ہے۔

2۔پراپرٹی ڈیلر  اگر  کسی شخص سے کوئی مکان خریدکر اس سے  بیعانہ دے دیتاہے اور مکمل رقم کی ادائیگی سے پہلے اس  مکان کو  آگے نفع پر بیچ دیتاہے  توپراپرٹی ڈیلر کے لیے اس مکان کو  آگے فروخت کرناجائز ہے  اور نفع بھی پراپرٹی ڈیلر کے لیے حلال ہے۔

3۔ اگرکوئی شخص پراپر ٹی ڈیلر سے کہتاہے کہ میرایہ مکان پچاس لاکھ روپے میں بیچ دو اور پراپرٹی ڈیلر اس سے آگے پچپن لاکھ روپے میں فروخت کرتاہے ،تو اس صورت میں پراپرٹی ڈیلر کے لیے ابتدامیں کمیشن  متعین کیے بغیر    آگے پچپن لاکھ روپے  فروخت کرنے کے صورت  میں پانچ لاکھ روپے رکھنا جائز نہیں ہے ،بلکہ اس کا مالک بھی مکان کا مالک ہے، البتہ اجرت متعین کرکے طے کرناچاہیے لہذاجائز صورت یہ ہوگا کہ  پراپرٹی ڈیلر مکان کے سوداکرائے جتنی قیمت میں فروخت ہو  وہ مالک کی ہوگی اور پراپرٹی ڈیلرکے لیے ابتدامیں جو اجرت طے کی گئی ہے وہ اس  کے لیے لینا جائز ہوگا۔

ردالمحتار میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمةعن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(کتاب الاجارۃ،مطلب في استئجار الماء مع القناة واستئجار الآجام والحياض للسمك6/63ط:سعید)

الدرالمختار میں ہے:

"وشرطها كون الأجرةوالمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة."

(کتاب الاجارۃ ،شروط الإجارة6/5ط:سعید)

ردالمحتار میں ہے:

"ثم اعلمأن المعاملاتعلى ما في كتب الأصول ثلاثة أنواع.

الأول: ما لا إلزام فيه كالوكالات والمضاربات والإذن بالتجارة، والثاني: ما فيه إلزام محض كالحقوق التي تجري فيها الخصومات.

والثالث: ما فيه إلزام من وجه دون وجه كعزل الوكيل وحجر المأذون، فإن فيه إلزام العهدة على الوكيل وفساد العقد بعد الحجر وفيه عدم إلزام، لأن الموكل أو المولى يتصرف في خالص حقه، فصار كالإذن. ففي الأول يعتبر التمييز فقط. وفي الثاني شروط الشهادة وفي الثالث إما العدد وإما العدالة عنده خلافا لهما فيتعين أن يراد هنا النوع الأول كما نبه عليه في العزمية۔"

(كتاب الحظر والإباحة6/643ط:سعید)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكاممیں ہے :

"( المادة 85 ) : الخراج بالضمان۔۔۔۔الخراج :هو الذي يخرجمن ملك الإنسان أي ما ينتج منه من النتاج وما يغل من الغلات كلبن الحيوان ونتائجه ، وبدل إجارة العقار ، وغلال الأرضين وما إليها من الأشياء .

ويقصد بالضمان المؤنة كالإنفاق على الحيوان ومصاريف العمارة للعقار ويفهم منها أنه من يضمن شيئا لو تلف ينتفع به في مقابلة الضمان مثلا لو رد المشتري حيوانا بخيار العيب وكان قد استعمله مدة لا تلزمه أجرته ؛ لأنه لو كان قد تلف في يده قبل الرد لكان من ماله .

يعني أن من يضمن شيئا إذا تلف يكون نفع ذلك الشيء له في مقابلة ضمانه حال التلف ومنه أخذ قولهم الغرم بالغنم ."

(( المادة 85 ) : الخراج بالضمان1/160ط:موقع الإسلام)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں