بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پراپرٹی کے کاروبار کا حکم


سوال

 میں پراپرٹی کا کام کرنا چاہتا ہوں ، لہٰذا مجھے شرعی دائرے میں کچھ نكات تیار کر کے  دے دیجیے کہ میں ان کو اپنے آفس میں لگاؤں ، مکان خر ید نے اور بیچنے والوں  سے کہوں کہ اگر ان نكات پر اپنا مکان خریدنا یا بیچنا چاہتے ہو تو میں اپنی کوشش کرلو ں گا!

جواب

پراپرٹی کے کاروبار میں نکات سے مراد اگر اس کی  چند مختلف  رائج صورتوں کا حکم معلوم کرنا ہے تو اس کا حکم مندرجہ ذیل ہے:

1: پراپرٹی کے کاروبار میں اگرفلیٹ وغیرہ کی بکنگ کی جائے اوراس فلیٹ کا کم ازکم ڈھانچہ تیار ہوجائے تو اسے آگے نفع کےساتھ فروخت کرنا جائز ہے، اگر ڈھانچہ تیار نہ ہو تو نفع کے ساتھ  بینچاجائز  نہیں۔

2: اگر کسی پروجیکٹ کے آغاز میں اب تک زمین اور پلاٹس متعین نہ ہوں، تو ان پلاٹس کی فائلوں کو نفع پر بیچنا جائز نہیں ہوگا، ہاں اگر پلاٹس متعین ہوچکے ہوں تو انہیں خرید کر نفع پر بیچا جاسکتاہے۔

3: پراپرٹی خرید کر قبضے سے پہلے بھی آگے بیچنا جائز ہے، لہٰذا اگر پلاٹ متعین ہو اور فلیٹ کا ڈھانچہ کھڑا ہو تو اسے خرید کر قبضہ اور رہائش سے پہلے بھی اسے آگے فروخت کیا جاسکتاہے۔

4:  پراپرٹی کے کاروبار میں اگر صرف زمین  یا فلیٹ خرید کر مکمل ادائیگی سے پہلے اسے نفع پر آگے بیچ دیا جائے  مثلاً کوئی شخص  زمین کا بیس لاکھ میں سودا کرکے  ایگریمنٹ دستخط وغیرہ کے بعد ساٹھ یا نوے دن کا وقت لے کر اس زمین کو آگے بیچ دیتا ہے، مثلاً پچیس لاکھ میں بیچ دیا اور باقی رقم بعد میں وصول کریں گے، جس پر پانچ لاکھ کا منافع ہوا ، اس طرح کرنا بھی درست  ہے۔

5: اگر ایک آدمی کچھ لوگوں سے ڈیل کرکے کہتاہے کہ پانچ یا دس لاکھ روپے انویسٹ کرو، پھر بعد انہیں ایک لاکھ یا دو لاکھ  فکس نفع دیتاہے ،چاہے خود  اس شخص کو فائدہ ہو یانقصان، اس طرح کرنا ناجائز ہے؛ کیوں کہ شراکت میں کسی ایک شریک کے لیے نفع کی رقم متعین کرناجائز نہیں ہے ۔

6: اگر کوئی شخص اسٹیٹ ایجنٹ کے طور پر کام کرتاہے تو اس کے لیے بروکری کی اجرت لینا جائز ہوگا، اگر وہ خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کے درمیان کردار ادا کرتا ہے تو دونوں سے متعینہ اجرت لے سکتاہے، اور اگر ایک طرف سے کردار ادا کرتا ہے تو اسی جانب سے متعینہ اجرت کا حق دار ہوگا، اور اگر بروکر کسی گاہک سے پلاٹ وغیرہ خود خرید رہاہو، یا اسے بیچ رہا ہو تو سامنے والے پلاٹ وغیرہ کی قیمت کے علاوہ کمیشن کے نام پر اجرت وصول نہیں کرسکتا۔

7: اگر کوئی شخص اسٹیٹ ایجنٹ سے یوں کہے کہ تم میرا گھر یا پلاٹ اتنی رقم (مثلًا دس لاکھ) میں بکوادو، اوپر جتنا نفع ہو وہ تمہارا ہے، یہ طریقہ جائز نہیں ہے، بلکہ بروکر کی اجرت متعین کرکے طے کرنی چاہیے، لہٰذا جائز طریقہ یہ ہوگا کہ وہ پلاٹ یا مکان کا سودا کروائے، جتنے میں سودا ہو، وہ پوری رقم مالکِ پلاٹ یا مکان کی ہوگی، اور بروکر کے لیے ابتدا میں جو اجرت طے کی گئی وہی ہوگی۔

غرض یہ ہے کہ پراپرٹی کے کاروبار میں اگر پلاٹ کا خریدنا شرعی اصولوں کے مطابق ہے، یعنی علاقہ میں پلاٹ والا حصہ متعین ہو، وہ پلاٹ  یقینی طور پر مذکورہ علاقے کی ملکیت ہو،پلاٹ پر مالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ بھی حاصل ہو اور  مزید کوئی شرعی قباحت بھی نہ ہو تو ان احکام کی پاس داری کے ساتھ مذکورہ کاروبار کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"ثم اعلم أن المعاملات على ما في كتب الأصول ثلاثة أنواع.

الأول: ما لا إلزام فيه كالوكالات والمضاربات والإذن بالتجارة، والثاني: ما فيه إلزام محض كالحقوق التي تجري فيها الخصومات.

والثالث: ما فيه إلزام من وجه دون وجه كعزل الوكيل وحجر المأذون، فإن فيه إلزام العهدة على الوكيل وفساد العقد بعد الحجر وفيه عدم إلزام، لأن الموكل أو المولى يتصرف في خالص حقه، فصار كالإذن. ففي الأول يعتبر التمييز فقط. وفي الثاني شروط الشهادة وفي الثالث إما العدد وإما العدالة عنده خلافا لهما فيتعين أن يراد هنا النوع الأول كما نبه عليه في العزمية."

(کتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:346، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں