بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پرائز بانڈ میں ملنے والی رقم کا مصرف


سوال

پرائز بانڈ سے  ملنے والا انعام کن کن لوگوں میں (بغیر ثواب کی نیت سے) تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ رشتے داروں کو دے سکتے ہیں؟ اگر رشتے دار زکوۃ کے مستحق نا ہوں، البتہ غریب ہوں اور  انہیں انعام والی رقم میں سے کُچھ پیسے دے دیئے ہوں، تو اب اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ پرائزبانڈ سے حاصل ہونے والی انعامی رقم  سود اور جوّے پر مشتمل ہونے کی وجہ سےناجائزہے، بنابریں کسی نے لاعلمی میں خرید لیے ہوں تو اس کے لیے اصل رقم لینا جائزہوگا،انعامی رقم کا استعمال جائزنہیں ہوگا، بلکہ اسے اگر مالک تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب مستحقِّ  زکوۃ   پرصدقہ کرنالازم ہوگا، کسی ایسے شخص کو دینا جائز نہیں ہے جو زکوۃ کا مستحق ہو۔

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبی) میں ہے:

"ياأيها الذين آمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين (278) فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من الله ورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون (279) 

قال علماؤنا إن سبيل التوبة مما بيده من الأموال الحرام إن كانت من ربا فليردها على من أربى عليه، ومطلبه إن لم يكن حاضرا، فإن أيس من وجوده فليتصدق بذلك عنه. وإن أخذه بظلم فليفعل كذلك في أمر من ظلمه. فإن التبس عليه الأمر ولم يدر كم الحرام من الحلال مما بيده، فإنه يتحرى قدر ما بيده مما يجب عليه رده، حتى لا يشك أن ما يبقى قد خلص له فيرده من ذلك الذي أزال عن يده إلى من عرف ممن ظلمه أو أربى عليه. فإن أيس من وجوده تصدق به عنه."

(سورة البقرة، رقم الآية:278/79، ج:3، ص:348،ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)

معارف السنن شرح سنن الترمذی  میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، "شرح قوله ولاصدقة من غلول"، مسئلة:الملك الخبيث يتصدق به، ج:1، ص:94، ط: مجلس الدعوة والتحقيق الاسلامى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200952

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں