بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کا انتقال والد سے پہلے ہو جائے تو کیا اس کی اولاد کو حصہ ملے گا؟


سوال

میرے بھائی سید ذو الفقار کا انتقال میرے والد کی زندگی میں ہو گیا تھا، میرے بھائی کی ملکیت میں کوئی جائیداد نہیں، میرے والد کا انتقال میرے بھائی کی موت کے دس ماہ بعد ہوا، تمام جائیداد اور کاروبار والد کی ملکیت میں تھا۔

میرے بھائی کی اولاد کا شرعاً کیا حق ہے؟

ہماری والدہ کا انتقال والد کے بعد ہو گیا، ان کے والدین کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے بھائی کا انتقال والد سے پہلے ہو گیا تھا تو والد کے ترکہ میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہو گا، آپ کے والد کی جائیداد کو تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہو گا کہ اولاً ان کی جائیداد میں سے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جائیں گے، پھر اگر ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اس کو کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد ان کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو آٹھ حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

مرحوم والدین 8

بیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
22211

یعنی فیصد کے اعتبار سے ہر ایک بیٹے کو 25 فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 12.50 فیصد ملے گا۔

بھائی کی اولاد کا والد کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے، جیسا اوپر لکھا گیا، تاہم اگر ورثاء میں سے کوئی شخص بھائی کی اولاد کو اپنے حصے میں سے الگ سے کچھ دے دے تو بڑے ثواب کا کام ہے۔

اللباب میں ہے:

"ومن شرط الإرث ‌تحقق ‌موت الموروث وحياة الوارث."

(كتاب المفقود ، جلد : 2 ، صفحه : 217 ، طبع : المكتبة العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100888

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں