میرے بھائی سید ذو الفقار کا انتقال میرے والد کی زندگی میں ہو گیا تھا، میرے بھائی کی ملکیت میں کوئی جائیداد نہیں، میرے والد کا انتقال میرے بھائی کی موت کے دس ماہ بعد ہوا، تمام جائیداد اور کاروبار والد کی ملکیت میں تھا۔
میرے بھائی کی اولاد کا شرعاً کیا حق ہے؟
ہماری والدہ کا انتقال والد کے بعد ہو گیا، ان کے والدین کا پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے بھائی کا انتقال والد سے پہلے ہو گیا تھا تو والد کے ترکہ میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہو گا، آپ کے والد کی جائیداد کو تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہو گا کہ اولاً ان کی جائیداد میں سے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جائیں گے، پھر اگر ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اس کو کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد ان کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو آٹھ حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
مرحوم والدین 8
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 1 | 1 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے ہر ایک بیٹے کو 25 فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 12.50 فیصد ملے گا۔
بھائی کی اولاد کا والد کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے، جیسا اوپر لکھا گیا، تاہم اگر ورثاء میں سے کوئی شخص بھائی کی اولاد کو اپنے حصے میں سے الگ سے کچھ دے دے تو بڑے ثواب کا کام ہے۔
اللباب میں ہے:
"ومن شرط الإرث تحقق موت الموروث وحياة الوارث."
(كتاب المفقود ، جلد : 2 ، صفحه : 217 ، طبع : المكتبة العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100888
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن