بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پوتی کا دادا کی میراث میں حصہ


سوال

کیا پوتی کو اپنے دادا، پر دادا کے متروکہ مال میں وراثت دی جائے گی؟

جواب

واضح رہے کہ احکم الحاکمین نے حقِ وراثت کا مدار فقر و تنگ دستی پر نہیں رکھا اور نہ ہی مالی لحاظ سے احتیاج و ضرورت پر رکھا ہے، بلکہ اس کا مدار قوتِ قرابت داری پر رکھا ہے، اور اس میں حکمت یہ ہے کہ انسانی ضروریات و احتیاج مختلف ہوتی ہیں، اور کون زیادہ محتاج ہے اس کے بارے میں تقسیمِ میراث کے وقت فیصلہ کرنا انتہائی دشوار ہے اور یہ انصاف کے پیمانے پر رکھتے ہوئے کسی کی احتیاج کے بارے میں فیصلہ صادر کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں، اور باہمی اختلاف کا باعث بھی ہے۔ پس قرابت داری پر مدار ہونے کی بنا پر میت کے ساتھ رشتہ میں جو زیادہ قریب ہوگا وہ استحقاقِ وراثت میں مقدم بھی ہوگا، اور اس کی موجودگی میں دیگر وہ رشتہ دار جو قرابت داری میں دور ہوں گے وہ محروم قرار پائیں گے۔ پوتا علی الاطلاق محروم نہیں ہوتا، بلکہ اس وقت محروم ہوتا ہے جب کہ دادا کی مذکر اولاد موجود ہو۔

اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ شریعت نے ترکے   کی تقسیم میں اَقرب فالاقرب کا اعتبار کیا ہے، اللہ  ربّ  العزت  نے  ورثہ  اور ان کے اَحوال وسہام  (حصوں) کی تفصیل بتانے کے بعد واضح انداز میں فرمادیا ہے:

{آباء كم وأبنآء كم لاتدرون أیهم أقرب لكم نفعًا فریضةً مّن اللّٰه اِنَّ اللّٰه كَان علیمًا حكیمًا}

ترجمہ:  ”تمہارے باپ دادا  اور  بیٹے، تم نہیں جانتے کہ نفع رسانی کے لحاظ سے کون سا رشتہ تم سے زیادہ قریب ہے،  (اللہ تعالی کی حکمتِ بالغہ ہی اس کا فیصلہ کرسکتی ہے)، اللہ تعالی نے یہ حصے ٹھہرادیے ہیں اور وہ (اپنے بندوں کی مصلحت کا) جاننے والا ہے(اپنے تمام احکام میں) حکمت والا ہے۔“

حاصل یہ ہے کہ قریب کا تعلق بعید کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے ،شاخ کا حق پہلے ہے، شاخ در شاخ کا بعد میں، بیٹا چوں کہ پوتے کے مقابلہ میں اقرب ہے؛  اس لیے اصولاً وہی مستحق وراثت ہے؛ البتہ اگر میت کی وفات کے وقت اس کا کوئی بیٹا حیات نہ ہو اور پوتے پوتیاں حیات ہوں تو  پوتے پوتیاں اس کے وارث بنتے؛ کیوں کہ اب ان سے اَقرب کوئی موجود نہیں، یہ تو  قانونی اور  اُصولی بات  ہے، جس کو  پیشِ نظر  رکھے بغیر تقسیمِ ترکہ کا نظام قائم نہیں رہ سکتا۔

اسی حكمت كى تحت  شرعی قانونِ وراثت  میں    پوتیوں  کے استحقاق  کی  چھ صورتیں بنتی ہیں :  

(1 ) پوتی  ایک ہو اور میت کی کوئی اولاد ( بیٹا بیٹی ) نیز پوتا بھی نہ ہو تو پوتی کو نصف ملے گا ۔

(2) پوتیاں ایک سے زائد ہوں اور میت کی کوئی اولاد ( بیٹا بیٹی ) نیز پوتا بھی نہ ہوتو پوتیوں کو  دو تہائی ملے گا، جس کو وہ آپس میں برابر تقسیم کرلیں گی۔

(3) پوتیوں کے ساتھ ایک حقیقی بیٹی بھی ہو ( بیٹا اور  پوتا نہ ہو ) تو پوتیوں کو  چھٹا حصہ   ملے گا ۔

(4) پوتیوں کے  ساتھ حقیقی بیٹیاں ایک سے زائد ہوں تو  پوتیاں محروم ہوجائیں گی ۔

(5) حقیقی بیٹیوں کی وجہ سے محروم ہونے والی پوتیوں کے ساتھ کوئی پوتا بھی ہو تو وہ ان کو "عصبہ بالغیر" بنادے گااور دوسرے اَصحابِ  فرائض (جن کے حصے متعین ہیں) کو دینے کے بعد باقی ترکہ ان کو مل جائے گا ،اور وہ آپس میں "للذّكرمثل حظّ الانثیین"(لڑکے کو لڑکی کا دوگنا ملے گا)  کے تحت تقسیم کر لیں گے۔

(6) پوتیوں کے ساتھ میت کا کوئی بیٹا ہو تو پوتیاں اور پوتے سب محروم ہوجائیں گے ، اسی طرح پڑ پوتیوں کے  ساتھ اگر کوئی پوتا ہو تو پڑ پوتیاں اور پڑ پوتے سب محروم ہوجائیں گے ۔ 

 یہ تو شرعی قانون ِ وارثت ہے، جس کو پیشِ نظر رکھے بغیر تقسیمِ ترکہ کا نظام میں عدل قائم نہیں رہ سکتا۔ البتہ انسان کو اپنی زندگی میں آثارِ موت ومرضِ وفات سے پہلے اپنے کل مال میں تصرف کا حق حاصل ہے، نیز موت کے بعد ایک تہائی مال کی وصیت کا حق بھی حاصل ہے، لہٰذا جو رشتہ دار شرعی طور پر وارث نہ بن رہے ہوں، لیکن وہ مستحق و ضرورت مند ہوں تو آدمی اپنی زندگی میں انہیں ہبہ کرسکتاہے اور  مرنے کے بعد ایک تہائی ترکے کے اندر اندر ان کے لیے وصیت بھی کرسکتاہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں اخلاقی طور پر دادا کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پوتوں کی گزر بسر کے لیے کوئی انتظام کرکے جائے، خواہ وہ رجسٹرڈ وصیت کی شکل میں ہو یا زندگی میں ہبہ کے ذریعہ ہو۔  نیز چچا کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بھتیجوں اور بھتیجیوں کے ساتھ شفقت وہم دردی اور ایثار کا معاملہ کرے، اور یتیموں کی کفالت کے متعلق جو بشارتیں آئیں ہیں ان کا مستحق بنے۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ شریعت نے یتیم پوتے، پوتی کے حقوق کا خیال نہیں رکھا ہے، بلکہ یہ اسلامی اَحکام کا حُسن ہے کہ ہر ایک کو اپنی حیثیت کے مطابق اس کا حق دیا گیاہے، چناں چہ یتیم کی کفالت کا انتظام اسلامی تعلیمات میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

اب بالفرض اگر کوئی دادا یا چچا ان بچوں کے حقوق کا خیال نہ کرے تو یہ اس کی اپنی کوتاہی ہوگی، ان کے اس رویہ کی بنا پر شریعت کے اصول پر انگلی اٹھانا ہرگز درست نہیں ہے۔

’’عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولی رجل ذکر‘‘.

(صحیح البخاري ۲/۹۹۷)

’’وقد ذکر الإمام أبوبکر جصاص الرازي رحمه اللّٰه في أحکام القرآن، والعلامة العیني في عمدة القاري: الإجماع علی أن الحفید لایرث مع الابن‘‘.

(تکملة فتح الملهم ۲/۱۸)

’’ولو کان مدار الإرث علی الیتم والفقر والحاجة لما ورث أحد من الأقرباء والأغنیاء، وذهب المیراث کله إلی الیتامیٰ والمساکین … وأن معیار الإرث لیس هو القرابة المحضة ولا الیُتم والمسکنة، وإنما هو الأقربیة إلی المیت‘‘.

 (تکملة فتح الملهم ۲/ ۱۷،۱۸)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الثانية - بنت الابن فللواحدة النصف وللثنتين فصاعدا الثلثان فهن كالصلبيات عند عدم ولد الصلب، كذا في الاختيار شرح المختار فإن اجتمع أولاد الصلب وأولاد الابن فإن كان في أولاد الصلب ذكر فلا شيء لأولاد الابن ذكورا كانوا أو إناثا أو مختلطين، فإن لم يكن في أولاد الصلب ذكر ولا في أولاد الابن ذكر، فإن كانت ابنة الصلب واحدة فلها النصف ولبنات الابن السدس واحدة كانت أو أكثر من ذلك، وإن كانت ابنة الصلب ثنتين فلهما الثلثان ولا شيء لبنات الابن وإن لم يكن في أولاد الصلب ذكر وكان في أولاد الابن ذكر فإن انفرد الذكور من أولاد الابن فالباقي بعد نصيب البنات لهم نصفا كان أو ثلثا فإن اختلط الذكور بالإناث من أولاد الابن فنقول: إن كانت بنات الصلب ثنتين فصاعدا فلهن الثلثان والباقي بين أولاد الابن للذكر مثل حظ الأنثيين عند علي وزيد - رضي الله تعالى عنهما - وهو قول جمهور العلماء - رحمهم الله تعالى - فإن كانت ابنة الصلب واحدة فلها النصف والباقي بين أولاد الابن للذكر مثل حظ الأنثيين، كذا في المبسوط."

(الفتاوی الهندية: كتاب الفرائض، الباب الثاني في ذوي الفروض (6/ 448)،ط. رشيديه)

نوٹ: آپ کا سوال اگر کسی خاص صورت سے متعلق ہے تو اسے ذکر کر دیں تو جواب دے دیا جائے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200920

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں