بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا پوسٹ مارٹم سے مردہ کو تکلیف ہوتی ہے؟


سوال

کیا پوسٹ مارٹم سے میت کو تکلیف ہوتی ہے؟  بعض لوگوں کا کہنا کہ جب روح نکل گئی تو تکلیف کیسے ہوسکتی ہے؟ 

جواب

خالق کائنات نے انسان  کو  محترم بنایا ہے، جس کی وجہ سے اس کا احترام  ہر حالت میں لازم ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ ہو، پس انسان کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا  جو اس کی  زندگی میں    اہانت  کا باعث ہو یا جس سے اس کی بے احترامی لازم آتی ہو ،  شریعتِ  مطہرہ نے  اس کی اجازت  نہ اس کی  زندگی  میں دی ہےاور  نہ ہی اس کی موت کے بعد  دی ہے،  یہی وجہ ہے کہ کسی عذر شرعی کے بغیر انسانی جسم میں زخم لگانے، کاٹنے یا عضو کے تلف کرنے اجازت نہیں دی گئی ہے،  اور  ظلماً کسی کا  عضو تلف کرنے پر قصاص کا حق مرحمت فرمایا ہے۔

 پوسٹ مارٹم کرنے میں انسانی جسم کی توہین کا لازم آنا ظاہرہے کہ چیرپھاڑ کی جاتی ہے اور جسم کے گوشت ، ہڈی وغیرہ کوبطورنمونہ کے حاصل کیا جاتاہے، اور  اس کے لیے  اس کے ستر کو کھولا جاتا ہے، اور یہ سب امور ایسے ہیں  جو زندگی کی حالت میں باعثِ اہانت ہیں، لہٰذا مردہ انسان کے  لیے بھی باعثِ اہانت  ہیں۔

نیز موت کے واقع ہوجانے کے بعد انسان کے جسم سے اس کی روح کا تعلق  بالکلیہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ اتنا تعلق باقی رہتا ہے جس  کی بنا پر مردہ  فرحت (خوشی) یا عذاب و تکلیف  کا ادراک کر سکتا ہے، پس پوسٹ مارٹم بھی میت کے  لیے باعثِ تکلیف ہے، لہذا اس کی شرعًا اجازت نہیں۔  البتہ  کسی حاملہ خاتون کا انتقال ہوجائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ  ہو تو  انسانی جان کی حرمت کے پیشِ نظر اس بچے کی زندگی بچانے کے لیے   بذریعہ آپریشن  اُسے نکالا جائے گا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں  ہے:

" 1714 - وعن عائشة: " «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كسر عظم الميت ككسره حيا» " رواه مالك، وأبو داود، وابن ماجه.

1714 - (وعن عائشة: أن رسول صلى الله عليه وسلم: قال " «كسر عظم الميت ككسره حيًّا» " يعني في الإثم كما في رواية. قال الطيبي: إشارة إلى أنه لايهان ميتًا، كما لايهان حيًّا. قال ابن الملك: و إلى أن الميت يتألم. قال ابن حجر: ومن لازمه أنه يستلذ بما يستلذ به الحي اهـ. وقد أخرج ابن أبي شيبة عن ابن مسعود قال: أذى المؤمن في موته كأذاه في حياته. (رواه مالك وأبو داود) قال ميرك: وسكت عليه. (وابن ماجه) قال ميرك: ورواه ابن حبان في صحيحه اهـ. وقال ابن القطان: سنده حسن".

( كتاب الجنائز، باب دفن الميت، 3 / 1226، ط: دار الفكر) 

تكملة البحر الرائق للطوري میں ہے:

" امرأة حامل ماتت فاضطرب الولد في بطنها فإن كان أكبر رأيه أنه حي يشق بطنها؛ لأن ذلك تسبب في إحياء نفس محترمة بترك تعظيم الميت فالإحياء أولى و يشق بطنها من الجانب الأيسر و لو لم يشق بطنها حتى دفنت و رئيت في المنام أنها قالت: ولدت، لاينبش القبر؛ لأنّ الظاهر أنها ولدت ولدًا ميتًا.امرأة عالجت في إسقاط ولدها لاتأثم ما لم يستبن شيء من خلقه.و عن محمد رجل ابتلع درة أو دنانير لآخر فمات المبتلع و لم يترك مالا فعليه القيمة و لايشق بطنه؛ لأنه لايجوز إبطال حرمة الميت لأجل الأموال و لا كذلك المسألة المتقدمة، و نقل الجرجاني شق بطنه للحال؛ لأن حق الآدمي مقدم على حق الله تعالى إن كان حرمة الميت حقًّا لله تعالى وإن كان حق الميت فحق الآدمي الحي مقدم على حق الميت لاحتياج الحي إلى حقه".

( كتاب الكراهية، فصل في البيع، خصي البهائم، 8 / 233، ط: دار الكتاب الإسلامي)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201654

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں