بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پورے سال عشاء کا وقت مغرب کے ڈیڑھ گھنٹے بعد شروع ہونے کا دعوی درست نہیں


سوال

ہمارے محلے میں ایک آدمی کہتا ہے کہ مغرب کی اذان کے ڈیڑھ گھنٹے بعد عشاء کا وقت داخل ہو جاتا ہے اور اسی حساب سے وہ اذان دیتا ہے جب کہ مروجہ کیلنڈر اور گھڑی کے حساب سے تقریباً دس منٹ کا فرق رہتا ہے تو کیا ڈیڑھ گھنٹے بعد اذان دینا درست ہے یا نہیں۔ وضاحت فرمادیں ؟

جواب

 واضح رہے کہ دنیا کے کسی بھی علاقے میں پورے سال کسی بھی نماز کے وقت کو گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے متعین نہیں کیا جا سکتا، بلکہ زمین اور سورج کی حرکت اور سورج کے مقامِ طلوع اور مقامِ غروب میں روزانہ تبدیلی کی وجہ سے نمازوں کے اوقات میں تبدیلی آتی رہتی ہے،  لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کی مراد یہ ہے کہ پورے سال مغرب کے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہی عشاء کا وقت شروع ہوتا ہے تو یہ بات درست نہیں ہے، بلکہ عشاء کے وقت کی ابتداء سمتِ مغرب میں شفقِ ابیض (مغرب کی سمت میں ظاہر ہونے والی وہ سفیدی جو سرخی کے بعد نظر آتی ہے) کے غائب ہونے سے ہوتی ہے اور اس کا وقت پورے سال یکساں نہیں رہتا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) أول وقت العشاء فحين يغيب الشفق بلا خلاف بين أصحابنا، لما روي في خبر أبي هريرة - رضي الله عنه - وأول وقت العشاء حين يغيب الشفق واختلفوا في تفسير الشفق، فعند أبي حنيفة هو البياض، وهو مذهب أبي بكر وعمر ومعاذ وعائشة - رضي الله عنهم -، وعند أبي يوسف ومحمد والشافعي هو الحمرة، وهو قول عبد الله بن عباس وعبد الله بن عمر - رضي الله عنهم - وهو رواية أسد بن عمرو عن أبي حنيفة".

(كتاب الصلاة، فصل :وأما شرائط الأركان1/ 124، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102949

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں